کتب احادیث میں بہت سی احادیث ہیں جو امور دعوت، وسائل دعوت اور اسلوب دعوت سے تعلق رکھتے ہیں نبی صلی الم کی سیرت مکہ اور مدینہ میں آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نیز ان حالات اور ان حالات سے نمٹنے کے علاج و طور طریقے یہ تمام چیزیں ہمیں وسائل دعوت اور اسالیب دعوت میں اہم مواد عطا کرتی ہے ، کیونکہ رسول صلی علیہ یکم جن مختلف احوال و ظروف سے گزرے ممکن ہے کہ داعی بھی ان احوال سے گزرے چنانچہ داعی کے ساتھ اس جیسا کوئی واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو اسے نبی صلی علیہم کی سیرت پر غور کرنا چاہئے اور ایسے حوادث سے نمٹنے کے لئے صحیح اور سلیم موقف کو ڈھونڈنا چاہئے اور استفادہ کرنا چاہئے
دعوت الی اللہ کے باب میں سنت کی اہمیت : دعوت
کے باب میں سنت کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ داعی عقائد ، عبادات، معاملات ، اخلاق
وغیرہ جن چیزوں کو لوگوں تک پہونچانا چاہتا ہے ، سنت سے کشید کرتا ہے۔ اللہ کا
فرمان ہے ”وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ
لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ( نحل : ۴۴) سنت داعی کے لئے صحیح منہج اور کامل راستہ کی رہنمائی کرتی
ہے۔ اللہ کا فرمان ہے " قُلْ هَذِهِ
سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَن اتَّبَعَنِي (يوسف: ۱۰۸ ) رسول اللہ صلی علیم کی زندگی میں تمام داعیان حق کے لئے
اسوہ اور قد وی ہے۔ " لَقَدْ كَانَ
لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (احزاب: ۲۱ ) رسول صلی لی ہم نے سنت کو اپنانے کی وصیت فرمائی ہے اور اس
کے منہج پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فرمایا عَلَيْكُمْ
بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ “امت اسلامیہ کا سنت کو اپنانے اور اس سے
رہنمائی حاصل کرنے پر اتفاق ہے۔ اور جو شخص اس سے رو گردانی اختیار کرتا ہے وہ
بدعتی ہے ، بذاتِ خود گمراہ ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ امام شاطبی فرماتے
ہیں " من اقتصر على القرآن دون السنة هم قوم لا خلاق لهم خارجين عن السنة
(الموافقات للشاطبي : ص / ٣٦١) رسول صلی یم کی زندگی میں صحابہ کے درمیان اختلاف
ہوا کرتا تھا، لیکن نبی اللہ کی عدالت میں معاملہ پہونچتے ہی حل ہو جایا کرتے تھے اور
صحابہ اکرام رسول طی یم کے فیصلہ کو بسر و چشم قبول کرتے تھے اور اس پر ایمان و یقین
اور اطمینان ہو تا تھا، جس کی تائید قرآن کی آیتیں کرتیں
ہیں۔ اسی طرح صحابہ کے زمانہ میں اختلافات پر
کنٹرول یا آپسی معاملہ میں اختلاف رائے کا خاتمہ ان کے ایمان پر ثابت قدمی اور پر
خلوص نیت اور صدق دلی کی بناء پر حل کیا جاتا تھا اور جلد ہی اختلافات ختم ہو جاتے
تھے اور اس کے اثرات زائل ہو جاتے تھے ۔ نبی طی یک کم کی وفات کے بعد مسلمانوں کے
در میان مختلف مسائل کے تئیں اختلافات پیدا ہوئے۔ سب سے پہلا اختلاف آپ طی می کم
کی وفات کے سلسلے میں اور وہ یہ کہ رسول یتیم کی موت دیگر انبیاء کرام کی طرح ہو
گئی ہے یا ان کی وفات نہیں ہوئی ہے ، بلکہ وہ بے ہوشی کی حالت میں ہے اور اس بے
ہوشی سے آپ کو افاقہ ہو گا، لیکن یہ اختلاف ابو بکر کی فراست اور ان کے خطبہ کے
بعد لوگوں کے درمیان کا اختلاف بھی جلد رفع ہو گیا۔
دوسرا اختلاف یہ ہوا کہ آپ یہی تم کو کہاد فن
کیا جائے یہ کہ نبی کو جہاں اسکی وفات ہوئی ہے ، وہیں پر دفن کر دیا جائے۔ تیسرا
اختلاف جیش اسامہ کو غزوہ کے لئے بھیجنے میں ہوا۔ تو حضرت ابو بکرؓ نے یہ کہ کر سب
کو راضی کر لیا کہ جس لشکر کو نبی طی تم نے اپنی زندگی میں بھیجنے کا فیصلہ کیا
تھا اور جس کی سرداری میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اس کو ہم ویسے ہی بھیجیں گے ،
تو تمام صحابہ نبی ان پر راضی ہو گئے۔ سب سے بڑا اختلاف اور مسئلہ خلافت اور امامت
کا آیا جس میں پھر حضرت ابو بکر کی فراست سے یہ حل کیا۔
اس کے بعد اور اختلاف مانعین زکاۃ سے جھاد کے
بارے میں ہوا، جو حضرت ابو بکر نے حل کیا۔
3) سیرت سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین اور
ان کی اقتداء کرنے والے دیگر اسلاف کا دعوۃ کے میدان میں یاد عوتی امور میں اہم
تجربہ رہا ہے ، جس سے داعی کو استفادہ کرنا چاہئے، کیونکہ سلف صالحین شارح عالی
نام کی مراد کو اور دعوۃ الی اللہ کے مسائل کو دوسروں کے مقابل زیادہ بہتر جانتے
اور سمجھتے تھے اور ہمیشہ سے اہل علم ان کی سیرت سے استدلال کرتے ہیں اور انکے نقش
قدم کی اقتداء کرتے ہیں۔
4) استنباطــات فقهاء فقھاء سے مراد وہ اہل علم ہیں جو احکام
شرعیہ کا استنباط اسکی شرعی دلیلوں سے کرتے ہیں اور ان احکامات میں سے کچھ مسائل
ایسے ہیں جسکا تعلق دعوتی امور سے ہیں جیسے امر و بالمعروف اور نہی عن المنکر کے
احکام، جہاد کے مسائل وغیرہ ان فقہاء نے ان ابواب پر انفرادی طور پر کتابیں تالیف
کی ہیں، اور اپنی فقہ کی کتابوں میں خاص ابواب قائم کیے ہیں۔ دعوتی مسائل اور
مجالات دعوت میں جو اجتہادات نہوں نے کیسے ہیں اس کا حکم بھی دیگر اجتہادی مسائل
کے حکم کے مانند ہے جس کی اتباع واجب یا مندوب ہے کیونکہ وسائل دعوت اور اسالیب
دعوت کا تعلق امورِ دین سے ہے جس طرح کہ عبادات اور معاملات کے مسائل دین سے ہیں۔
5) تجارب
تجربہ انسان کا سب سے بڑا اور عمدہ معلم ہے
خصوصاً ان لوگوں کے لئے جن کا رابطہ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ داعی کے لئے دعوت کے
میدان میں بڑے تجربات ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ اس کے ڈائیریکٹ عمل کا نچوڑ اور
نمونہ ہوتا ہے اور عملی تطبیق ہوتی ہے اور اس کی ایک عملی تطبیق سے اس کی خطاؤں کے اسباب ہوتے ہیں جس سے وہ
مستقبل میں بچ سکتا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد بھی ہے چنانچہ ایک اثر میں منقول
ہے کہ ”الحكمة ضالة المؤمن جس طرح داعی اپنے تجربات سے استفادہ کرتا ہے دوسروں کے
تجربات سے اور اسالیب اور وسائل کے استعمال اور اس کے انتخاب سے بھی استفادہ کر
سکتے ہے۔