اہل علم نے اسلامی دعوت اور اس کی خصوصیات پر بڑی تفصیل سے باتیں کی ہیں، بلکہ مستقل کتابیں تالیف کی ہیں ، لیکن چند خصوصیات کے تذکرے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہیں۔
یہ دعوت ربانی دعوت ہے یعنی من جانب اللہ ہے،
بلفظ دیگر اس کا منہج اسلامی منہج ہے ، جو قرآنِ کریم سے ماخوذ ہے ۔ قرآنِ کریم
اسلام کا اساسی مصدر ہے ، اور منزل من عند اللہ ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے۔ ”وإنه
لتنزيل رب العالمین“۔ قرآنِ کریم کی اتباع واجب اور ضروری ہے، فرمان باری تعالیٰ
ہے ”وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ
فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (انعام: 155)
اسی طرح دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اور اسے
اللہ تعالیٰ نے دین متعین کیا ہے، اس کے سواد و سرادین مقبول نہیں ہے اللہ جل شانہ
کا فرمان ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلامُ عمران : ۱۶) نیز فرمایا " وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَامِ
دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (عمران :
۸۵)
اسلام کی یہ خصوصیت تمام وضعی قوانین سے بنیادی
طور پر مختلف ہے۔ کیونکہ ان وضعی قوانین کا مصدر ”انسان“ ہے لیکن اسلام کا مصدر رب
الانسان“ ہے۔ لہذا اسلام کی اس خصوصیت سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے اور اس کی
اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئے ، اسی طرح اسلامی دعوت کے اندر دنیوی مصالح کی
آمیزش نہیں ہوتی ، یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ بیماریوں کا علاج بلا اجرت کے اور
بلا مقابل کے کیا جائے، یہی انبیاء علیہ اسلام کا یعنی نوح علیا سے لیکر ہمارے
آخری نبی صلی ای تک تک سب کا شعار رہا ہے۔ تمام انبیاء نے اپنی قوم کو پیغام دیا
اور اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اپنی قوم سے یہ پیغام کہلوایا قُل لَا
أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا (شوری:۲۳) انبیاء
علی الم کا یہ عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دعوت الی اللہ کے عمل کے لئے ضروری ہے
کہ وہ دنیوی منافع اور حظوظ نفس (خواہش نفس) سے بلکل دور ہوں۔ چنانچہ دعوت کا یہ
عمل مال
جمع کرنے کے لئے جاہ و مرتبت اور شہرت کے حصول کے لئے اور
اپنی دنیا بنانے کے لئے نہ ہو بلکہ اللہ تعالی کے لئے ہو ۔ اور اس کی رضاء کے لئے
ہو ، ورنہ یہ دعوت اللہ کے یہاں مقبول نہ ہو گی اور لوگوں کے نزدیک مؤثر نہ ہو گی۔
اس رہبانی دعوت کا لازمہ ہے کہ وہ کامل ہو اور نقص و جہل اور ھواء و ظلم سے خالی
اور عاری ہو۔ دلیل اللہ کا فرمان ہے، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا (مائده :
13 نيز فرمايا لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ
تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدِ (فصلت: ۴۲) نیز
فرمایا وَتَمَّتْ كَلِمَةُ
رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (ھود : ۱۱۹) اور وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کمالِ
مطلق ہے تو اس کمال کا اثر ان احکام، مناہج اور قواعد پر بھی ظاہر ہو گا جس کو اس
نے مشروع قرار دیا ہے ، بر خلاف ان قواعد اور قوانین کے جس کو انسانوں نے وضع کیا
ہے ان میں نقص ، ھواء ، جہل ، ظلم اور جور کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ تمام
کے تمام اوصاف بشریت اور انسانیت کے لوازم ہیں اور مکمل طور پر ان کا نقائص اور
عیوب سے جدا ہو نا محال ہے۔
2. اسلامی دعوت ربانی دعوت ہے اس کا دوسرا لازمہ یہ ہے کہ
اس کے اندر کسی قسم کا تعارض اور اختلاف نہیں ہے اللہ فرمان ہے " أَفَلَا
يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا
فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (نساء:۸۲) بشری قوانین ہر طرح کہ نقائص سے بھر پور ہوتے
ہیں جس کی مثال سورج کی روشنی کی طرح بالکل ظاہر ہے۔
.3 ربانی دعوت کا لازمہ یہ بھی ہے کہ اہل اسلام
اور مؤمنین کے دلوں میں اسکا احترام، اس کی ہیبت ، اسکی حکمرانی اور یہ احترام
عقید ہ وایمان کی اساس پر قائم ہے مثلاً آیت تحریم خمر ہے، جس کے اندر فاجتنبوہ کا
کلمہ آیا ہے جس نے مسلمانوں پر یہ اثر ڈالا ہے کہ مدینہ کی گلیوں میں اہل ایمان نے
شراب کے مٹکے پھوڑ دیے اور گلیاں شراب سے بہہ پڑیں، اور ان کے نفوس نے شراب پینے
سے اپنے آپ کو اس قدر دور کر لیا کہگویا شراب سے ان کی کوئی واقفیت نہیں رہی اور
اسے انہوں نے کبھی چکھا ہی نہیں۔ کیونکہ اللہ کا حکم وارد ہوا اور اللہ کے اوامر
کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا احترام اور اطاعت کی جائے۔ اسلامی دعوت کی دوسری خصوصیت
یہ دعوت زندگی کے ہر ناحیہ کو شامل ہے، خواہ وہ
عقدی مسائل ہو ، فکری مسائل ہو یا سیاسی، اجتماعی ہو یا اقتصادی مسائل۔ اسی طرح
امراض قلوب ہو یا اسکا علاج و شفایابی ہو یہ سارے امور اس میں شامل ہیں۔ نیز عقلوں
کو دنیا و آخرت کے حقیقی مصالح کی جانب متوجہ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ساتھ ہی
دنیاو آخرت کے تمام امور کو یہ دعوت محیط ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے "مَا
فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى
رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ“ (انعام: ۳۸) سنت سے یہ چیز ثابت ہے، صحابی کا فرمان ہے
”علمنار سول ملي كل شئي حتى الحذاء
شمولیت کا لازمہ کیا ہے؟ (1) ایمان و التسليم :
اللہ کا فرمان ہے : " فَلَا
وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ
لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(انعام: ۶۵)
(ب) الاتباع وعدم الابتداع : قال النبي صلى
الله ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا، فَهُوَ رَدُّ (ت) اس حکم
کی عملی تطبیق کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا: اسلامی شریعت کی یہ شان ہے کہ کسی
بھی مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ غیر اسلامی ا نظام کو اپنی زندگی کے کسی گوشے اور
پہلو میں نافذ کرے۔ اس لئے اگر اس نے ایسے کیا تو اللہ فرمان"
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ
وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ (بقره: ۸۵) ۔“ اسلامی دعوت کی تیسری خصوصیت
اسلامی دعوت ایک عالمی دعوت ہے۔ یعنی یہ دعوت
پوری بشریت کو شامل ہے اور اس کا مخاطب تمام انسان ہے ، اور ہر قوم اور قبیلہ کے
لوگ ہیں۔ ان کی زبان، مکان اور الوان کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ یہ دعوت کسی معین
جنس کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ اس کے مخاطب تمام لوگ
ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے " قُلْ يَا
أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (اعراف: ۱۵۸) دوسرا فرمان” وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا
رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (انبیاء: ۱۰۷) تیسر ا
فرمان وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةَ لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا
وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (ا:128) حدیث میں نبی صلی للہ ہم نے
فرمایا اوتيت خمساً لم يعطهن قبلى وفيه كان النبي يبعث إلى خاصة ويبعث إلى الناس
كافة “ اسلامی دعوت کی چوتھی خصوصیت اسلامی دعوت کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ دعوت یہ
متوازن ہے۔ یعنی انسان کی زندگی میں اور عبادات و حیات کے مابین توازن برقرار
رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے ” رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا
بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ
يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَار ( نور : ۳۷) اس طرح قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نفس
کے حقوق کی ادائیگی ، اہل و عیال کے حقوق کی ادائیگی اور روزی روٹی کے حصول کی بھی
تذکیر کرتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے ” فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي
الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (جمعہ :۱۰) سنت نبوی
کے اندر بھی یہ الفاظ ہے ”و لجسمک علیک حق ولز و جک علیک حق “
اور اسی طرح رسول صلی اللہ ہم نے وقت نشاط میں عبادت کا حکم دیا ہے، اسی طرح اور ایسے ہدایات کے لئے بہت سے نصوص کتب احادیث میں موجود ہے۔
اسلامی دعوت کی پانچویں خصوصیت
اسلامی دعوت ایک مبسوط اور آسان دعوت ہے۔ یعنی
اس کے مبادی واضح اور سمجھ میں آنے والے ہیں۔ ہر ذی عقل سلیم اور باشعور آدمی
بآسانی اس کو سمجھ سکتا ہے ، اور ہر صاف ستھری ذہنیت اور فطرت کے حامل لوگ اسے
قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں اس جانب اشارہ فرمایا ”
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (قمر:۱۷)
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى
قُلُوبِ أَقْفَاها (محمد :۲۴)
اسلامی دعوت کی چٹھی خصوصیت
اسلامی دعوت ہمیشہ ہمیش رہے والی دعوت ہے اور
ہر زمان و مکان کے لائق ہے۔ یعنی یہ دعوت لوگوں کی حاجت اور ان کے مصالح کی رعایت
کرتی ہے الا یعلم من خلق و ھو الطیف الخبیر “ حدیث میں ہے حضرت انس روایت کرتے ہیں
ولن يصلح آخر هذه الامتد الا بما صلح به اولها مصادر الدعوة واصولها واساليبها :
ان مصادر کو مختصر ا ایک سطر میں بیان کیا جاسکتا ہے اور وہ حسب ذیل ہے۔
.1 قرآن کریم جسے سلف صالحین کی فہم پر سمجھا
گیا ہو۔
2 سنت نبویہ جسے سلف صالحین کی فہم پر سمجھا
گیا ہو۔
3. سیرتِ اسلاف صالحین یعنی خلفاء راشدین کی
سیرت اور صحابہ و تابعین رضیالم کی سیرت۔
4. فقھاء کے استنباتات
5 تجربات داعی کا دعوتی میدان میں خود اس کا تجربہ اور اسی طرح دیگر دعاۃ کے تجربات۔
مذکورہ بالا مصادر کی قدر تفصیل یہ ہے کہ سب سے
پہلے
1) قرآن میں بیشتر آیات ایسی ہیں جس میں رسولوں
یا انبیاء کے اور ان کے ساتھ ان کی اقوام کے واقعات پر مشتمل خبریں ہیں ، اسی طرح
دعوت کے
امور میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی جناب رسول صلی کا م کو جو ہدایات دی ہیں مذکور ہیں۔ ان آیات کریمہ سے اسالیب الدعوۃ، وسائل دعوت کے باب میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس طرح دین کے دیگر امور کے اندر ایک مسلمان استفادہ کرتا ہے اور تفقہ حاصل کرتا ہے کیونکہ اللہ نے جو قصے بیان فرمائیں ہیں اور جو خبریں دی ہیں ، محط اس لئے کہ ہم اس سے استفادہ کریں اور دعوت کے میدان میں اس کی تنفیذ کرے ،اور اس کے منہج کا التزام کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے " وكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُل مَا تُقَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (هود: ۱۲۰)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اپنے رسول کی اقتداء کرتے ہیں اور رسول نے رسولوں کی سیرت یارسولوں کی زندگی میں سے امور دعوت کے باب میں جس چیز کو اسوہ بنا یا مسلمان اس کو بھی اپناتے ہیں چنانچہ اللہ نے فرمایا ہے " لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَاكَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (يوسف: ۱۱۱) سابقہ امتوں کے نقص اور واقعات اور ان کے اور ان کے انبیاء کے درمیان حوادث رونما ہوئے، صحابہ عقول سلیمہ کے لئے عبرت، موعظت اور نصیحت ہے اور اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں کیونکہ ایمان نے ان کے دلوں کو قبول حق کے لئے کھول دیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے نبی صلی ایم کو مخاطب کر کے فرمایا " أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهَدَاهُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ (انعام: ۹۰) یہ آیت کریمہ دعوت الی اللہ کے باب میں رسولوں کے منہج کی اقتداء کے لزوم کی جانب اشارہ کرتی ہے اور جب کہ یہ حکم رسول صلی اللہ ہم کو دیا گیا تو آپ کی امت آپ کی تابع ہے، لہذا ایک داعی کے لئے واجب ہے کہ وہ کتاب اللہ سے اپنار ابطہ مضبوط رکھے ، اس کو پڑھے ، یاد کرے، اس کو سمجھے ، اس پر عمل کرے اور اس کے اوامر پر وقوف اختیار کرے اور اس کی توجیہات کا التزام کرے اور اپنی زندگی کے تمام احوال میں اس کی اتباع کرے اور اس کو اپنائے۔