علامہ احسان الہی ظہیر " اپنی کتاب "القادیانیہ" میں لکھتے ہیں کہ قادیانیت کا یہ قائد اخلاقی ناحیہ سے عدیم المثال تھا کیونکہ سب و شتم ، گالی گلوچ ، بدکلامی اور فحش کلامی کے وہ کون سے کلمے اور جملے ہیں جسکو اس شخص نے اپنے مخالفین کے لئے استعمال نہیں کیا ، اس کی مثالیں اس کی تحریر کردہ کتابوں اور رسالوں جیسے "انجام آثم ، خطبہ الھامیہ اور انوارالاسلام وغیرہ کتابوں میں بھری پڑی ہیں ۔
قادنیت
قادیانیت
مدعیان
نبوت اور دجالوں کے ظہور کی مذمت سے متعلق چند آیات و احادیث
اللہ
تعالی نے رسول e کے خاتم النبین اور ورحمۃ للعالمین ہونے کے سلسلے میں قرآن کریم
میں جابجا و ضاحت فرمائی ہے جن میں سے چند آیتیں حسب ذیل ہیں۔
¤ قولہ تعالی ؛ ما کان
محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبین ۔(سورہ احزاب 40)
¤قولہ
تعالی ؛ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (سورہ
المائدہ 3)
سنت
رسول کے اندر بھی اس جانب اشارہ فرمایا گیا ہے حدیث کے الفاظ ہیں ۔
"و
ایم اللہ لقد ترکتکم علی مثل البیضاء لیلھا و نھارھا سواء"
دوسری
حدیث میں آپe نے فرمایا "انہ لم یکن نبی قبلی الا دل امتہ علی ما یعلمہ من
خیرلھم و حذرھم ما یعلمہ من شرلھم "
یہ
اور اس جیسی اور بھی دوسری حدیثیں ہیں جن میں ختم نبوت کا اثبات کیا گیا ہے ، ایک
اور حدیث میں آپe نے فرمایا"کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء
کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی "
ایک دوسری حدیث میں آپe نے فرمایا ۔" أما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی إلا انه لا بعدی
نبی،
اسی طرح اللہ کے رسولe نے اس
جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ قیامت سے قبل کچھ جھوٹے لوگوں کاظہور ہوگا ، کچھ نبوت کے
دعویدار پیدا ہوں گے ، الفاظ حدیث ہیں ’’ان بین الساعۃ کذا بین دجالین ‘‘
اور ایک حدیث کے اندر
فرمایا "حتی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ
"
یہ وہ تمام حدیثیں ہیں جن
پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے ۔
انہیں نبوت کے دعویداروں
میں سے ہمارے ملک ہندوستان کے اندر ایک شخص بھی پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد
قادیانی ہے، جس نے قادیانیت کے نام پر ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور اپنی عیاری ،
چالاکی اور علمی شہرت کے ذریعہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں اپنی
شناخت بنا کر اور لوگوں کو اپنے فریب میں مبتلا کر کے انہیں اپنا گرویدہ بنایا ۔
قادیانیت
کی نشوونما
انیسویں صدی عیسوی کے
اندر ہندوستان میں اس جماعت کا ظہور ہوا ۔ یہ جماعت قادیانیت کے نام سے موسوم ہوئی
، ہندوستان اور پاکستان میں اسی نام سے یہ جماعت معروف ہے ، افریقی ممالک میں یہ
جماعت احمدیہ کے نام سے آگے چل کر معروف و موسوم ہوئی ۔ احمدیہ نام مسلمانوں کو
دھوکہ دینے کےلئے رکھا گیا ، یہ جماعت اپنے آپکو محمدe سے
منسوب کرتی ہے اس جماعت کو ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ نے اپنے دور حکومت میں جنم
دیا اور اسکی پرورش و پرداخت کی ، اس کی تقویت اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے اس
جماعت اور اس کی فکر کی ترویج و اشاعت کیلئے ہر طرح کی مادی و معنوی مدد کی ۔ کچھ
یوں بیان کیا جاتا ہے کہ سر سید احمد خان کی مغرب نواز تحریک نے ظہور قادیانیت اور
منحرف افکار کی ترویج کی راہ ہموار کی ۔پھر انگریز نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور
اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے آلۂ کار ایک خاندان سے ایک شخص کو قادیانی
تحریک کیلئے ابھارا اور اسکی ہر طرح پشت پناہی کی ۔ یہودیوں نے بھی ان کی پشت
پناہی کی ۔
بیان کیا جاتا ہے کہ
اسرائيل میں بھی اس کا سینٹر ہےاور یہ مراکز اسلام کی نشرو اشاعت کے نام پر قائم کئےگئے
ہیں، جیسا کہ قادیانیوں کا دعوی ہے ۔ قادیانیت
کی نشرواشاعت مسلم ممالک کےمسلمانوں کی جہالت ، کم علمی اور غلط افکار کےانکے ذھن و دماغ میں پختہ ہونے کے بعد زور پکڑا ، ذکر
کیا جاتاہے کہ پاکستانی حکومت میں ظفراللہ خان نامی شخص کے وزارت خارجہ کے محکمہ پر فائز
ہونے کے بعد اس جماعت کو مزید قوت کے ساتھ پنپنے کا موقع ملا اور یہ جماعت ایک بڑی
جماعت کی شکل میں نمودار ہوئی ۔ مذکورہ وزیر نے اس جماعت کی تقویت کیلۓ ہر ممکن کوشش کی ۔"
قادیان "ان کا مرکز اول بنا، اور دوسرے نمبر پر" ربوہ "نامی شہر
قادیانیوں کی راجدھانی اور ان کی دعوت و تبلیغ کا سینٹر بنا ۔ انڈونیشیا اور بعض
افریقی ممالک میں اس کا پرچار ہوا ، اس جماعت کی بڑی خواہش رہی ہے کہ جزیرۂ عرب
میں داخل ہونے کی کوئی صورت نکل آۓ اور قدم جمانے کا موقع مل جاۓ ، چونکہ جزیرۂ عرب مرکز وحی
ہے اور روۓ زمین پر بسنے والے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے دل
اس سرزمین سے جڑے ہوۓ ہیں ۔ قادیانیت کے فتنے سے نمٹنے کیلئے اللہ تعالی نے اہل علم کی
ایک جماعت کو مسلط فرمادیا ہے جنہوں نے ان قادیانیوں کے خطرات اور ان کے اسلام سے
ارتداد کو واشگاف کیا ، ان علماء مجاھدین میں سے اسلامی ممالک کے علماء کے علاوہ
ہندوستان اور پاکستان کے علماء کی ایک کثیر تعداد ہے ، جنہوں نے قادیانیت کے افکار
سے لوگوں کو آگاہ کیا ، پاکستانی پارلیمنٹ میں اس کا شمار غیر مسلم اقلیت میں کئے جانے
کی قرار داد منظور کرائی اور انہیں غیرمسلم قرار دیا گیا ۔ اس کے باوجود قادیانیت کے
نشاطات آج بھی جاری ہیں اور صحیح اسلامی تعلیمات سے ناواقف مسلمان اور نوجوان اور
جدید ثقافتی تہذیب کے دلدادہ اور حامی افراد قادیانیت کے قبول کرنے سے باز نہیں رہ
رہے ہیں اور قادیانیت بھی اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے اموال اور دعاۃ کو
پلاننگ کے تحت استعمال کرتی ہے وہ مسلمانوں کو قادیانی کی نبوت اور قادیان کی طرف رخت
سفر باندھنے کی فضيلت اور جہاد کی مخالفت اور انگریزی حکم و فرمان سے رضامندی کا
اظہار کر کے مسلمانوں کو ان کے دین سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
مؤسس
قادیانیت کا مختصر تعارف
نام
و نسب :- اسکا نام غلام احمد قادیانی ہےوالد کا نام غلام
مرتضی اور داداکا نام عطاء محمد اور ماں کا نام چراغ بی بی تھا اس کے نسب کے سلسلے
میں بڑے مختلف اور متضاد اقوال ہیں ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا خود اپنا بیان بھی
اس بابت مضطرب ہے ، کبھی وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کا اصل خاندان مغل خاندان ہے ،
کبھی وہ اپنے آپ کو فارسی النسل قرار دیتاہے اور کبھی وہ اپنے آپ کو چین سے جوڑ تا
ہے اور کبھی اپنے آپ کو بنی فاطمہ سے جوڑ کر فاطمی کہتاہے اور آل بیت سے رشتہ جوڑ
تا ہےاور کبھی اہل سمرقند سے اپنے آپ کو منسوب کرتاہے اور کبھی اپنا سلسلہ بنی
اسحاق سے جا ملاتا ہے ۔ جب اسے اس خلط و اضطراب کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ یوں
جواب دیتا "ھکذا اخبر ت عن اللہ عزوجل" او "ھکذا الھم اليّ من اللہ "
غلام احمد قادیانی کی
ولادت 1839 عیسوی یا 1840 عیسوی میں قادیان نامی ایک شہر میں ہوئی ۔ قادیان پنجاب
کا ایک شہر ہے اور غلام احمد قادیانی کا یہ خاندان انگریزی استعمار کی خدمت میں
بڑا ہی مشہور و معروف خاندان تھا ۔ اس کے باپ ، دادا انگریزی حکومت کے بڑے وفادار تھے
اور راجہ رنجیت سنگھ جو سکھ حکمران تھا اس کی طرف سے فوجی مناصب اور جاگیریں تفویض
کی گئی تھیں ، یہاں تک کہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس قادیانی خاندان نے انگریزوں کے
خلاف لڑی جانے والی جنگ 1857 عیسوی کی غدر میں انگریزوں کی بھرپور مدد کی اور
زبردست مالی اور فوجی تعاون کیا ، لیکن اہل وطن کے ساتھ خیانت اور ظالم انگریزی
حکمرانوں کی حمایت کے سبب اس خاندان کو انحطاط اور زوال کا منہ دیکھنا پڑا ،
جاگیریں چھن گئی اور یہ خاندان بھی غریب کسان کی طرح باقی رہا ۔ایسے ہی خاندان میں
غلام احمد قادیانی کی پیدائش ہوئی یہ زمانہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت کا آخری
زمانہ تھا ۔(تحفۃ قیصریہ 16 خودنوشت سوانح غلام احمد قادیانی )
طفولیت
و تعلیم :
غلام احمد جب سنِّ شعور
کو پہونچا تو اس نے ابتدائی نحو و صرف کی کتابیں اور بعض عربی و فارسی کی کتابیں
پڑھیں ، جیسا کہ خود اس کا بیان ہے کہ میں نے قرآن کریم اور فارسی کی کتابیں فضل
الہی سے اور صرف و نحو اور طب کا علم فضل احمد سے پڑھی اور طب و حکمت میں مہارت
اپنے والد سے حاصل کی ۔ میرے والد ایک ماہر طبیب اور عراف تھے اس فن میں انہیں ید
طولی حاصل تھا اس کا خود اپنا بیان ہے کہ علم حدیث فقہ اور اصول کا علم حاصل کرنے
کا اتفاق مجھے نہیں ہو سکا ۔ اس کی حیثیت سمندر سے قطرہ اور بارش کے پانی سے شبنم
جیسی ہے ۔
غلام احمد کے بیٹے اور اس
کے خلیفہ کے کلام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کےوالد کے اساتذہ میں سے بعض
اساتذہ ایسے تھے جو نشہ اور افیون کے خوگر تھے۔ (قادیانی جریدہ "الفضل "
5 فروری 1929ء)غلام احمد نے سیالکوٹ کے اندر انگریزی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں(سیرت
مہدی 1/137 تالیف بشیرالدین) یہ مدرسہ
انگریزوں نے سیالکوٹ کے اندر حکومت کے اہل کاروں کیلئے قائم کیا تھا اور امیر شاہ نامی
ایک شخص کو بحیثيت مدرس اس مدرسہ میں ملازم رکھا ۔
مرزا غلام احمد کی کم
علمی کے اثرات اس کے مقالات اور اس کی تحریروں میں ظاہر ہوتی ہیں، دقیق علمی مسائل
میں اس کی غلطیاں اور خامیاں محدود نہیں بلکہ عام تاریخی امور کے اندر بھی فحش
غلطیاں اس کی کم علمی پر دلالت کرتی ہیں ۔
غلام احمد قادیانی کا خود
اپنا بیان ہے کہ میں دوبیماریوں میں مبتلا ہوں ایک کا تعلق جسم کے اوپری حصہ سے ہے
اور دوسرے کا تعلق جسم کے نچلے حصے سے ہے یعنی سردرد اور دوران سر اور جسم کے نچلے
حصے سے متعلق یعنی امراض بولیہ کا شکار ۔ اسی طرح یہ شخص اعصابی امراض میں بھی
مبتلا تھا اسکا حافظہ اور ذاکرہ نہایت ہی کمزور تھا اور عمر کے آخری مرحلہ میں اگر
یہ کہا جاۓ کہ یہ شخص جامع الامراض تھا تو یہ بات خلاف واقع نہ ہوگی ۔آخری
عمر میں مراق اور مالی خولیہ جیسی مہلک بیماری میں مبتلا تھا، ایک قادیانی طبیب ڈاکٹر شاہ نواز اپنے قائد و
رہنما کے امراض کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ ہمارے آقا مختلف امراض جیسے دوران راس ،
سردرد ، قلت نوم ،سوء ہضم، ضعف قلب ، اسہال ، کثرت بول اور مراق جیسی بیماریوں میں
مبتلا رہے ہیں۔
قادیانی
کی شہرت اور اس کی دعوت کا آغاز :-
غلام احمد کا ظہور سب سے
پہلے ایک مجذوب شخص اور اسلام کا دفاع کرنے والے شخص کی شکل میں ہوا، جب اس نے
سیالکوٹ میں ملازمت ترک کردی اور اسکے بعد بیکار پھرتا رہا اس وقت اس نے ہندوؤں ،
نصرانیوں اور آریوں کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا کیونکہ وہ دور مسلم علماء اور
عیسائی و ہندومت کے مذھبی رہنماؤں کے مابین مناظرات اور علمی مباحث کا دور رہا ۔
عام مسلمان اپنے علماء اور مناظرین کا بڑا احترام کرتے تھے اور اپنے مال و اسباب
سے حسب استطاعت ان کی خدمت کیا کرتے تھے ۔ غلام احمد قادیانی نے سوچا کہ ملازمت کے
بالمقابل اس طریقے سے مال اور جاہ و مرتبت کا حصول زیادہ سہل اور آسان ہے چںانچہ
اس نے سب سے پہلے ہندوؤں کے خلاف ایک اعلان شائع کیا اور اخبار و جرائد میں چند
مقالات لکھے اس کے بعد عیسائیوں اور ہندوؤں کے خلاف اعلانات اور
چیلنجوں کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس عمل کی بنا پر مسلمانوں کی عام توجہ اس کی طرف
مبذول ہوگئی اور لوگوں کی نگاہ میں وہ مقبول ہو گیا پھر اس نے اعلان کیا کہ وہ
پچاس جلدوں میں ایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں اسلام اور مسلمانوں پر کۓ جانے والے جملہ اعتراضات
اور اس کا جواب درج کریگا ۔ مسلمانوں سے اس کتاب کی طباعت کے سلسلے میں تعاون کا التماس
بھی کیا، چنانچہ بہت سے مسلمان اس کے دھوکے میں آگئے ، اسی دوران اس نے اپنی کرامات
اور جھوٹےکشوف کا اعلان بھی کیا ، جاہل عوام نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ یہ عالم سے
بڑھ کر ایک مجذوب شخص اور ولی اللہ ہے چنانچہ اس کی کتاب کی طباعت کیل لوگوں نے ایک
خطیر رقم ارسال کرنا شروع کر دیا ۔ کتاب کی طباعت کا اعلان 1877ء یا 1878ءمیں کیا اور اس کا پہلا حصہ 1880ء میں
شائع کیا اور اس کا نام براھین احمدیہ رکھا ۔ یہ کتاب پوری کی پوری اعلانات و
اشتہارات اور قادیانی کے کشوف و کرامات سے بھری رہی ہے ۔ 1882ء میں دوسرا حصہ اور
1883ء میں تیسرا اور چوتھا حصہ شائع کیا ، دوسرا اور تیسرا حصہ پہلے حصے کے مشمولات
پر مشتمل رہا ہے اور چوتھے حصہ میں انگریزی حکومت کی مدح و ثناء پر سارا زور صرف
کیا ، لوگوں تک جب یہ کتابیں پہنچیں تو انہیں بڑا تعجب ہوا ۔ اور انہیں یہ بات
سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قادیانی کے اعلانات و اشتہارات سے اس کا مقصد اسلام
اور مسلمانوں کی خدمت کرنا اور دفاع کرنا نہیں بلکہ جاہ و مال اور حصول شہرت اس کا
مقصد رہا ہے چونکہ اسوقت انگریزوں کو مسلمانوں سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا
پڑتا تھا اس لئےانگریزوں کو مسلمانوں میں سے کچھ اپنے لوگوں کی تلاش تھی جنہیں مسلمانوں
میں شہرت حاصل ہو اور انہیں وہ اپنا الۂ کار بناسکیں ، چنانچہ مرزا غلام احمد نے انگریزوں
کی یہ مراد پوری کی اور انگریزوں نے بھی اس شخص کیلئےہر نفیس اور ثمین چیز پیش کی،
اور اس قادیانی نے مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح غداری کی جس طرح کہ اس کے باپ نے1857ء
سے پہلے غدر کیا تھا ، البتہ اس کے باپ کی غداری وطن اور اہل وطن کے ساتھ تھی اور
مرزا غلام احمد کی غداری دین اور اہل دین کے ساتھ رہی، اس شخص نے انگریزی استعمار
کی توجیہات پر سب سے پہلے1885ءمیں اپنے مجدد ہونے کا دعوی کیا اور 1891ء میں مہدی
مدعو ہونے کا دعوی کیا اور پھر اسی سال اپنے آپ کو مسیح موعود کی شکل میں پیش کیا
اس وقت اس نے یہ اظہار کیا کہ وہ نبی متبع ہے اور اس کے بعد 1901ء میں اپنے آپ کو
نبی مستقل کا دعوی کیا اور یہ کہ وہ تمام
انبیاء و رسل سے افضل ہے اس کے اس نبوت کے دعوے سے پہلے ہی کچھ صاحب بصیرت اہل علم
نے اس کے دعوے کو بھانپ لیا لیکن اس شخص نے ان کے اعتراض پر سختی سے انکار کیا اور
یہ اظہار کیا کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو اہل سنت کا ہے اور میں یہ عقیدہ رکھتاہوں کہ
محمد e خاتم النبین ہیں
اور ان کے بعد نبوت کادعوی کرنے والا کافر و کاذب ہے ۔(تبلیغ رسالت غلام احمد
قادیانی )
لیکن اس کے بعد بھی انگریزی
استعمار کے اشارے پر وقفے وقفے سے مجددیت کے دعوے سے اس کی دعوت و فکر کی شروعات
ہوئی اور ادّعاء نبوت پر اس کادعوی ختم ہوا ،براھین احمدیہ نامی کتاب جس کے 50
جلدوں کے لکھنے کا اعلان کیا تھا وہ اپنی عمر کے آخری مرحلے تک اس کی صرف پانچ جلدیں
ہی نشر کرسکا ۔ اس کے اعلان پر تعاون کرنے والوں نے جب اس سے اس سلسلے میں استفسار
کیا تو اس نے انہیں یہ جواب دیا کہ 5 اور 50 میں صرف ایک نقطہ کا ہی فرق ہے ۔
مرزا
غلام احمد کے اخلاق و عادات :-
علامہ احسان الہی ظہیر " اپنی کتاب "القادیانیہ" میں لکھتے ہیں
کہ قادیانیت کا یہ قائد اخلاقی ناحیہ سے عدیم المثال تھا کیونکہ سب و شتم ، گالی
گلوچ ، بدکلامی اور فحش کلامی کے وہ کون سے کلمے اور جملے ہیں جسکو اس شخص نے اپنے
مخالفین کے لئے استعمال نہیں کیا ، اس کی
مثالیں اس کی تحریر کردہ کتابوں اور رسالوں جیسے "انجام آثم ، خطبہ الھامیہ
اور انوارالاسلام وغیرہ کتابوں میں بھری پڑی ہیں ۔
قادیانیت
کے افکار و عقائد :-
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->قادیانیوں کا عقیدہ یہ
ہیکہ اللہ تعالی روزہ رکھتا ہے ، صلاۃ ادا کرتا ہے ، سوتا ہے جاگتا ہے اور
نعوذباللہ غلطیوں کا صدور بھی اس سے ہوتا
ہے (البشری مرزاغلام احمد ۔۔۔۔۔۔۔)
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->قادیانیوں کا عقیدہ یہ
بھی ہے کہ اس کا الہ انگریز ہے اور اس پر وحی کرنے والا اور لانے والا انگریز ہے
وحی کی زبان انگریزی ہے (تذکرہ وحی مقدس
ص/31 مرزا غلام احمد )
براھین احمدی ص/480)
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->قادیانیوں کا عقیدہ یہ
بھی ہے کہ نبوت کا سلسلہ محمدe پر ختم نہیں ہوا
بلکہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالی رسول کو حسب ضرورت بھیجتا ہے اور غلام احمد
قادیانی تمام انبیاء میں افضل ہیں (انوار خلافت
محمود احمد قادیانی ص/ 62 ؛"رسالۃ الفضل " شمارہ 14 مئ 1925ء ۔)
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے
کہ جبرئیلu غلام احمدقادیانی
پر وحی لیکر آتے تھے اور ان کا الھام قرآن کی طرح ہے یہ قادیانی اس بات کے بھی
قائل ہیں کہ قرآن وہ ہے جس کو مسیح موعود نے پیش کیا ہے اور حدیث وہی معتبر ہوگی
جو غلام احمد قادیانی کی تعلیمات کی روشنی میں ہو (رسالہ الفضل 10 اپریل 1922ء خطاب محمود احمد قادیانی
، خلافت کے منکر کا انجام ص/ 68 تالیف جلال الدین قادیانی )
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ
ان کی کتاب منزل من اللہ ہے ان کی کتاب کا نام " الکتاب المبین " ہے وہ قرآن کریم کے
علاوہ ہے (النبوۃ فی الالھام
ص/43 یوسف قادیانی )
<!--[if !supportLists]-->(6)
<!--[endif]-->ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ
وہ لوگ ایک مستقل اور جدید دین والے ہیں اور وہ ایک مستقل شریعت کے حامل ہیں اور
غلام احمد کے رفقاء صحابہ کے مانند اور مثل ہیں ۔(خطبہ الھامیہ ص/ 171
مرزا غلام احمد )
<!--[if !supportLists]-->(7)
<!--[endif]-->ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ
قادیان جہاں غلام احمد مدفون ہے اس کی حیثیت مکہ اور مدینہ کی طرح ہے ، بلکہ ان دونوں
سے افضل ہے اس کی سرزمین حرم ہے وہی ان کا قبلہ ہے اور اسی کی طرف ان کا حج ہے
چنانچہ قادیانیوں کا خلیفہ مرزا کا بیٹا کہتا ہے کہ ہمارا سالانہ اجتماع ہی حج ہے
اور اللہ نے قادیان کو حج کے لئے چن لیا ہے ، چںانچہ اس میں بے حیائی ، نافرمانی اور
جھگڑا کرنامنع ہے (برکات خلافت محمود احمد
ص/ 7 ، 15) سالانہ جلسہ میں شرکت کئے بغیر حج نہیں ہوسکتا کیونکہ اب مکہ میں
حج کرنے کیلئے حج کا مقصد حاصل نہیں ہوتا اور صرف قادیان میں قیام پذیر رہنا ہی نقل
حج سے بہتر ہے ۔(آئنیۂ کمالات اسلام
ص/352 مرزا غلام احمد
قادیانی، رسالۃ پیغام صلح 19 اپریل 1933)
<!--[if !supportLists]-->(8)
<!--[endif]-->ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ
جہاد کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس کا انہوں نے اعلان کیا اسی طرح انہوں نے
برطانوی استعماری حکومت کی اندھی اطاعت اور تقلید کا بھی دعوی کیا۔ کیونکہ ان کے
اپنے فاسد زعم کے مطابق وہی اولو الامر ہےاس کی دلیل قرآن کی آیت "واطیعواللہ
واطیعوالرسول واولی الامر منکم " ہے بلکہ ان کا یہ بھی بیان ہے کہ یہ حکومت مجرد
برطانوی حکومت نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے جس نے اس حکومت کی نافرمانی کی اس نے
اسلام کی نافرمانی کی ، اللہ کی نافرمانی کی اور رسول اللہ کی نافرمانی کی ۔(کتب
مرزاغلام احمد قادیانی بحوالہ قادیانیت ،
احسان الہی ظہیر )تبلیغ رسالۃ تالیف
قاسم قادیانی ۔
<!--[if !supportLists]-->(9)
<!--[endif]-->ہر مسلمان اس کے نزدیک
کافر ہے تا آنکہ وہ قادیانیت قبول کر لے اسی طرح اگر کسی نے غیر قادیانی سے شادی
کی یا کرایا تو وہ دونوں کافر ہیں۔
<!--[if !supportLists]-->(10)
<!--[endif]-->خمر ، افیون اور نشے کی
تمام چیزوں کو یہ قادیانی مباح قرار دیتے ہیں(خطوط امام بنام غلام ص/5 )(سوداۓ مرزا حکیم محمد علی طبیب
کالج امرتسر )
<!--[if !supportLists]-->(11)
<!--[endif]-->اسی طرح قادیانیت کا
عقیدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص غلام احمد پر ایمان نہیں لاتا اور اس کی بات تسلیم نہیں
کرتا تو ایسا شخص کافر ، مخلد فی النار ہے ۔ چنانچہ قادیانی خلیفہ محمود احمد کا
بیان ہے کہ ہر وہ شخص جو غلام احمد پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے دین سے خارج ہے
۔ گرچہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتاہے اور اس نے غلام احمد کا نام سنا بھی نہیں ۔ (آئین صداقت ص/35)
مرزا اپنی نبوت کی پیروی
کیلئے کہتا ہے کہ جو شخص تیرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ جو تیری بیعت پر داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے
گا وہ خدا اور رسول کی مخالفت کرنے والا جہنمی ہے (الھام مرزا ،
تبلیغ رسالت ج/9 ص/27 ، 68 )
اسی طرح غلام احمد کے
دوسرے بیٹے بشیر احمد کا بیان ہے کہ ہر وہ شخص جو موسی پر ایمان رکھتاہے اور عیسی
پر ایمان نہیں رکھتا یا عیسی پر ایمان رکھتا ہے اور غلام احمد پر ایمان نہیں رکھتا
وہ کافر ہے اسی طرح جو محمدe پر ایمان رکھتا ہے
اور غلام احمد پر ایمان نہیں رکھتا وہ بھی کافر ہے اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے
۔ (کلمۃ الفضل تالیف بشیر احمد یوسف قادیانی اور نورالدین
خلیفہ اول اور دیگر قادیانیوں کی کتاب میں اس طرح کی باتیں ہیں ۔)(قادیانیت ص/41)
غلام
احمد قادیانی کی تکفیر کے اسباب :-
اہل علم نے درج ذیل اہم
نقاط کے سبب غلام احمد قادیانی اور امت قادیانیت کی تکفیر کی ہے اور انہیں اسلام
سے خارج مانا ہے ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->غلام احمد قادیانی کا
نبوت کا دعوی کرنا ۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->برطانوی استعمار کی خدمت
اور اس کی اطاعت کی خاطر فریضۂ جہاد کو منسوخ کرنا ۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->مکہ مکرمہ کی طرف حج کا
ملغا کرنا اور فریضۂ حج کی ادائيگی کو قادیان کی طرف تحویل کرنا ۔
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->اللہ تعالی کی تشبیہ بشر
سے دینا ، بلکہ ایک حقیر جانور سے تشبیہ دینا (توضیح المرام غلام احمد قادیانی ص/75)
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->قادیانیوں کے اندر تناسخ
اور حلول کے عقیدے کا پایا جانا (کتاب البریۃ
مرزا غلام احمد قادیانی ص/75)
<!--[if !supportLists]-->(6)
<!--[endif]-->اللہ کی طرف اولاد کی
نسبت کرنا اور اپنے بارے میں اس کا ابن الہ کا دعوی کرنا (انجام آثم ص/55اور وحی مقدس ص/650)
<!--[if !supportLists]-->(7)
<!--[endif]-->غلام احمد قادیانی کا
محمدe کے خاتم النبین
ہونے کا انکار کرنا اور نبوت کے دروازے کو ہر کس و ناکس کیلئے کھول
دینا ۔
یہ چند اہم نقاط ہیں جسکے
پیش نظر علماء اسلام نے اس کی تکفیر کی ہے قادیانیت کے خلاف 1953ء میں مظاہرہ شروع
ہوا ، اس کے خلاف آواز بلند کی گئی ،
1974ء میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے ایک کانفرنس مکہ میں بلائی جس میں پوری
دنیا کے اسلامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوۓ اس جماعت کے کفر اور اسلام
سے خروج کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو اس جماعت کے خطرات سے آگاہ رہنے اور ان کے ساتھ
تعاون نا کرنے اور مسلمانوں کے قبرستان میں ان کے مردوں کو دفن نہ کرنے کا اعلان
کیا ۔
ختم
نبوت اور قادیانیت کا موقف :-
غلام احمد قادیانی نے ختم
نبوت کے مسئلے کو لیکر مختلف ناحیہ سے لوگوں کی عقلوں سے کھلواڑ کیا اور انہیں یہ
باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کی نبوت کا دعوی محمدe کی ختم
نبوت کے عقیدے سے متعارض نہیں ہے اور مختلف تعبیرات کے ذریعہ اپنی جدید نبوت کا
دھوکہ لوگوں کو دیا اور ختم نبوت کے مفہوم و معانی کو مختلف تاویلات کے ذریعہ بیان
کیا چنانچہ علامہ احسان الہی ظہیر نے اپنی کتاب
قادیانیت ص/152 میں ختم نبوت کی یہ تاویلات درج کی ہیں ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->خاتم کا مطلب آخری نہیں
بلکہ افضل ہے چنانچہ جہاں کہیں بھی نبی e کے ساتھ
خاتم کالفظ آۓ اس سے مراد افضل ہے آخر یا آخری نہیں۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->خاتم کا مطلب مہر ہے اور
نبی کریم e لوگوں کے مہر لگانے
کے لۓ آۓ ہیں یعنی آپe جس پر مہرلگاتے
ہيں وہ شخص نبی بن جاتا ہے ۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->جہاں کہیں لفظ خاتم اور
النبین اکٹھے آتے ہیں جیسا کہ (ولکن رسول اللہ و خاتم النبین ) تو یہاں پر مراد
"النبین " سے یہ ہے کہ تشریعی نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے جبکہ غیر تشریعی
نبی یعنی ایسا نبی جسکی مستقل اور اپنی کوئی الگ شریعت نہ ہو بلکہ وہ صاحب شریعت
نبی کے پیغام کو آگے پہنچانے والا ہو جیسے کہ ھارون u ، موسیu کی
شریعت کو پھیلانے کیلئے بھیجے گۓ وہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔(قادیانیت ، علامہ
احسان الہی ظہیر ص/192)
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->اس کا یہ کہناہے کہ اللہ
تعالی امت محمدیہ میں جب کسی کی تکریم کرنا چاہتا ہے اور اسے وحی الہام اور نبوت
کے درجے تک پہونچاتا ہے تو اسکی یہ نبوت ختم نبوت کے متعارض نہیں ہوتی کیونکہ وہ
شخص امت محمدیہ میں ہوتا ہے اور آپ کے اتباع میں ہوتا ہے ، ہاں ختم نبوت کا مفہوم ناقص
اور متعارض ہوگا جب کہ اس کا دعوی کوئی ایسا شخص کرے جو امت محمديہ کے غیر میں سے
ہو۔
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->محمدe کی ختم
نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ کمالات نبوت آپe پر تمام ہوگئی اور
آپکے بعد کوئی ایسا رسول جو صاحب شریعت جدیدہ ہو نہیں آئيگا ، اسی طرح کوئی ایسا
نبی جو آپ کی امت کے سوا ہو نہیں آئیگا ، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد جتنے
انبیاء آئيں گے سب کے سب آپ کی امت میں سے ہوں گے ۔ یہی وہ نظریہ ہے جسکی تشہیر
غلام احمد قادیانی کے خلیفہ بشیر محمود نے
اپنی کتاب "دعوۃ الامیر" میں کی ہے۔ لیکن غلام احمد قادیانی نےبعد میں
اپنے آپ کو مستقل نبی ہو نے کا دعوی کیا اور اس کا پروپیگنڈا کیا اور اپنے متبعین
کیلئے ایک جدید شریعت بنا ڈالی ۔
<!--[if !supportLists]-->(6)
<!--[endif]-->ختم کا معنی نبیe کے بعد
تیرہ صدی تک نبوت کامؤخر ہونا ہے تاکہ محمدe کی عظمت
کا اظہار ہو پھر میں اس کے بعد ایسے شخص کا ظہور جس پر نبی کے کلمے کا اطلاق ہو تاکہ
نبوت کا سلسلہ بر قرار رہے اور اسی مناسبت سے نبیe کی زبان
پر مسیح موعود فی آخرالزمان کیلئےنبی کا کلمہ جاری ہوا ۔
<!--[if !supportLists]-->(7)
<!--[endif]-->ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ
غلام احمد قادیانی ظل رسول اللہ ہے ، یعنی وہ رسول کا سایہ ہے اس جملے سے وہ یہ باور
کرانا چاہتاہے کہ کمالات محمدیہ کا عکس غلام احمد قادیانی کے اندر ہے اور غلام
احمد قادیانی کی نبوت محمدe کی ختم نبوت کے
عقیدے سے متعارض نہیں ہے اور لوگوں پر ضروری ہے کہ ایسی باتوں پر غور و فکر کرنا چھوڑ
دیں اور قادیانی پر ایمان لا کر اسکی تصدیق کریں ۔
<!--[if !supportLists]-->(8)
<!--[endif]-->محمدe پر ختم
نبوت کی بات کہنا اس میں تو ایک اللہ پر تہمت ہے کہ اس کا خزانہ خالی ہوگیا اور یہ
کہ رسولوں کے ارسال پر اللہ قادر نہیں رہا ۔نیز ان کا یہ بھی کہنا کہ محمدe پر ختم
نبوت یا انقطاع نبوت کی بات لوگوں کی حاجت و ضرورت کے منافی ہے ، انسانوں کے مابین
انبیاء و رسل کا ہمیشہ ہونا لوگوں کی ایک حاجت ہے ۔
قادیانیت
کی نشرو اشاعت کے اسباب :-
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->صحیح دین اسلام جو اللہ
کا پسندیدہ دین ہے اس کی حقیقت سے اکثر و بیشتر لوگوں کی جہالت اور عدم واقفیت سب
سے اہم سبب ہے ۔مسلمانوں کی اکثریت مقلد ہے اور مقلد ہر قسم کی دعوت سے متاثر
ہوجاتا ہے اور ہر چیخنے اور پکارنے والے کی تقلید کر بیٹھتا ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->مادی اور معنوی طور سے اس
خبیث دعوت کی ترویج اور تائيد میں استعماری طاقتوں کی پشت پناہی بھی دوسرا اہم سبب
ہے ، یہ استعماری طاقتیں عالم اسلام میں اپنے مقصد کی براری میں ایسی کوششیں ہمیشہ
سےکرتی رہی ہیں ۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->قادیانیت عیسائی مشنری کی
طرح غریب مسلمانوں کو مالی تعاون کے ذریعہ اور ان کی سوسائٹی میں مدارس ، مساجد
اور ہسپتال قائم کر کے قادیانی فکر پر مشتمل کتابوں کی توزیع و تقسیم کر کے اور
انہیں اچھے وظائف کے ذریعے اپنی طرف بھی مائل کرتی ہیں ۔
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->یہ جماعت اپنے مبلغین کو
ایسے محلوں میں جنکے اندر جہالت عام ہوتی ہے ، بھیجتی ہے اور ان کے ذھن کو مسموم
کر کے قادیانیت کی طرف مائل کرتی ہے یہ مبلغین سادہ لوح مسلمانوں کو باور کراتے
ہیں کہ قادیانیت اور اسلام دونوں ایک ہی چیز ہے بلکہ قادیانیت اسلام کی خدمت کیلئےہی قائم ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->قادیانیت کے خلاف عالم
اسلام کی عدم بیداری اور سست رفتاری بھی ایک سبب ہے جبکہ ہر زمانے میں علماۓ کرام کی ایک جماعت ہمیشہ
رہی ہے جو اس جماعت کے افکار و خیالات سے اور ان کے اہل کاروں سے ہمیشہ نبردآزما
رہی ہے۔
قادیانیت
کے نشاطات :-
قادیانیوں کے نشاطات کے مظاہر متعدد ہیں ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->کتابیں تالیف کرنا ،
صحیفے اور مجالات شائع کرنا ، کتابیں یا پامفلیٹ تیار کرنا اور لوگوں میں اسکی
تقسیم کرنا چنانچہ اس جماعت کی متعدد کتابیں اور رسائل ہیں جو اس فرقہ کے عمائدین
نے تیار کیا ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->تعلیم کے میدان میں متعدد
مدارس اور کالجوں کا قیام بھی ہے ۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->ہاسٹل کا قیام اور پوری
دنیا میں اپنی فکر کو رواج دینے کے لئے وفود کا بھیجنا ان کے اہم
نشاطات میں سے ہیں ۔
اس جماعت کے تنظیم کے
سلسلے میں دکتور ناصر بن عبدالکریم العقل لکھتے ہیں کہ قادیانیوں نےپاکستان ميں
ایک قصبہ قائم کیا جس کا نام ربوہ ہے اسے
قادیانیوں کا خاص مرکز قرار دیا اور پاکستان کے اندر اپنی حکومت قائم کرنے کی مکمل
پلاننگ کی جیسا کہ اس کی صراحت مرزا بشیرالدین محمود نےاپنے بیان میں پاکستان کے
قیام کے ایک سال بعد کیا تھا ۔ان قادیانیوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو
امیرالمؤمنین کا لقب بھی دیا۔
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->انہوں نے مرزا غلام احمد
قادیانی کو امیرالمؤمنین کا لقب دیا ، قادیانیوں نے ایسے ایسےادارے یا شعبےقائم
کیا جو کسی حکومت کومنظم کرنے کے مثل اور مشابہ ہوتے ہیں۔ان اداروں میں سب سے اہم
ادارہ ریاسۃ المجلس الاحمدی ہے یہ ریاست مجلس الوزراءکے مشابہ ہے اس ریاست کے تابع
کئی وزارتیں ہیں جیسے وزارت امورخارجہ ، وزارت التعلیم اور وزارت زراعت وغیرہ ، اسی
طرح ان کے یہاں اوقاف بھی پایا جاتا ہے اور اس کا اہم کام ایسے اشخاص تیار کرنا
جنہیں وہ مختلف ملکوں اور شہروں میں بھیج کر اپنے باطل افکار کی نشرواشاعت کر سکیں
۔اسی طرح انصاراللہ نامی تنظیم قائم کرنا جو ان کی عسکری تنظیم ہے جو قادیانیوں کی
حمایت اور ان کے دفاع میں کام کرتی ہے یہ اور اس طرح دیگر ادارے اور شعبے ہیں جو
اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ قادیانی جماعت ایک خالص سیاسی تنظیم ہے ۔(الموجز
فی الادیان والمذاھب المعاصرہ
ص/150)
غلام
احمدقادیانی کی موت :-
1907ء میں غلام احمد
قادیانی اور شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری کے درمیان ایک مناظرہ ہوا ، اس مناظرے
سے غلام احمد قادیانی کو بڑی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا اور جس کی وجہ سے وہ شیخ
الاسلام سے کافی غضبناک ہوگیا یہاں تک کہ اس نے شیخ الاسلام سے یہ چیلنج کردیا کہ
اللہ تعالی ان دونوں میں سے جھوٹے شخص کو صادق کی زندگی میں موت دے دے۔ یہ بھی ذکر
کیا جاتاہے کہ قادیانی نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالی باطل شخص کو
اس کے ساتھی کی زندگی میں موت دے دے گا اور اس پر ہیضہ اور طاعون جیسی بیماری مسلط
کردے اور اسی میں اسکی موت ہوجاۓ ۔(اعلان غلام احمد قادیانی 15 اپریل 1907ء مندرجہ تبلیغ رسالت ج/10
ص/120)چنانچہ 1908 ء میں اس کی یہ دعا قبول ہوگئی اور مرزا غلام احمد قادیانی
ہیضہ کی بیماری میں مبتلا ہوا اور بیت الخلا میں قضاۓ حاجت کے دوران 26مئ
1908ء کو مرگیا ۔اس کی موت شہر لاہور میں ہوئی ۔اس کی لاش قادیان منتقل کی گئی اور
اس کے مقبرہ میں دفن کیا گیا جس کا نام اس نے بہشتی مقبرہ رکھا تھا ۔ مرزا کی موت
کے بعد شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری " چالیس سال تک
باحیات رہے اور قادیانیت کی رد میں اپنی زندگی کھپادی ، اور 15 مارچ 1948ء میں
وفات پائی ۔رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
خلفاۓقادیانیت :-
مرزاغلام احمد قادیانی کی
1908ء میں وفات کے بعد اس کا جانشین اس کاجگری دوست حکیم نورالدین بھیروی اس کا
خلیفہ اور جانشین ہوا۔حکیم نورالدین پاکستان کے پنجاب قصبہ بھیرا ضلع سرگودھا کا
رہنے والا تھا ،1858ء میں راولپنڈی کے سرکاری اسکول میں فارسی کا استاذ رہا ، پھر
پرائمری اسکول کا مدیر چارسال رہا ، اس کے بعد ملازمت ترک کردی اور علوم عربیہ کی تحصیل ریاست رام پور میں کی۔وہاں
سے فراغت کے بعد لکھنؤ گۓ اور وہاں کے مشہورحکیم ماہر طبیب حکیم علی حسین کے پاس رہ کر
طب کی تکمیل کی ۔کچھ عرصہ مکہ معظمہ میں مولانا رحمۃ اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں
اور مدینہ منورہ میں شاہ مجدد علی نقشبندی کے پاس رہے اور ان سے علم حاصل کیا،
1878ء کے قریب جموں و کشمیر
مہاراجہ کے یہاں شاہی
طبیب مقرر ہوۓ اپنی قابلیت کے سبب مہاراجا کے نزدیک زبردست رسوخ حاصل کرلیا۔ اور
یہی رسوخ مخالفین کی حسد اور حکیم صاحب کی معزولی کا سبب بنا ۔ 1894ء میں معزول کر
دئیےگئے انہیں ایام میں غلام احمد قادیانی جو اس وقت سیالکوٹ میں مقیم تھا شناسائی
ہوئی اور دونوں میں دوستی ہوگئی اور پھرمرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی پھر اس کے
مشن کے دست و بازو بنے رہے ، مرزا کے بعد حکیم صاحب 6سال تک اس کی خلافت کے جانشین
رہے اور آخری ایام میں گھوڑے سے گرکر شدید زخمی ہوگئے کئی روز زبان بند رہی اور بالآخر
13مارچ 1914 کو مر گئے(قادیانیت اپنے آئینے میں ص/157-158)
ذکر کیا جاتا ہے کہ حکیم
صاحب کواستعماری حکومت کی طرف سے خلیفہ اول اور خلیفہ المسیح الموعود کے لقب سے
نوازا گیا۔
حکیم نورالدین کی موت کے
بعد قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ اور جانشین مرزا بشیرالدین محمود ابن مرزاغلام احمد
قادیانی ہوا ۔
قادیانیت
کی تقسیم :-
حکیم نورالدین کے انتقال
کےبعد قادیانی امت میں سخت اختلافات برپا ہوگئے اور قادیانیت دو گروپ میں تقسیم
ہوگئی ۔شیخ صفی الرحمان اپنی کتاب "قادیانیت اپنے آئینے میں " لکھتے ہیں
کہ مرزا صاحب کے صاحبزادے میاں بشیرالدین محمود جانشینی کیلئےپہلے سے تیار بیٹھے تھے
، انصاراللہ نام کی اپنی حمایتی مہم تیار کر رکھی تھی۔ حکیم نورالدین کے انتقال کے
بعد مرزا صاحب کے دوسرے دست راست محمد حسن امروہی کو مستحق خلافت سمجھا گیا، لیکن
وہ بشیرالدین کی تیاریوں سے واقف اور خائف بھی تھے چنانچہ جب وہ بیعت لینے کے لئے کھڑے
ہوۓ تو اچانک بشیرالدین کا ہاتھ
پکڑ کر کہا کہ آپ لوگوں نے مجھے خلیفہ منتخب کیاہے اور میں اس صاحبزادے کے ہاتھ پر
بیعت کرتا ہوں اس طرح بشیرالدین محمود کا انتخاب عمل میں آیا لیکن ایک اچھی خاصی
جماعت نے محمود کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تو محمود نے ان پر قادیان کی زمین تنگ
کردی اور انہیں قادیان چھوڑ کر جانا پڑا ان لوگوں نے مولوی محمدعلی لاہوری کو اپنا
امیر جماعت منتخب کرلیا اور ایک علیحدہ تنظیم بنالی اور شہر لاہور کو اپنا مستقر
بنا لیا ، یہی گروہ قادیانیت کی" لاہوری جماعت" کے نام سے معروف و مشہور
ہوا ، اس طرح قادیانیت دوفرقوں میں تقسیم ہوگئی ۔ قادیانیوں کی بڑی جماعت
بشیرالدین محمود کے ساتھ رہی چونکہ اس کا مستقر قادیان تھا اس لۓ وہ" قادیانی "یا
"قادیانیت "اور اسی طرح احمدیہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔تقسیم ملک کے بعد
جب اس گروہ نے اپنے مستقر کے طور پر "ربوہ" شہر کی تعمیر کی تو اس کی
طرف نسبت کرتے ہوۓ یہ گروہ "ربوی" بھی کہلایا اور محمود کی طرف منسوب ہو کر محمودی بھی
کہلایا اسی طرح لاہوری گروپ کا ایک سرکاری آرگن پیغام صلح تھا اس لۓ انہیں پیغامی بھی کہا
جاتا ہے ۔
مرزا محمود نیک بڑا فاسق
شخص تھا ، عیاش تھا ، اپنی دینی زعامت کے پردے میں نوجوان دوشیزاؤں کو اپنی ہوس کا
شکار بناتا تھا ۔ اس کام کیلئے مرد و عورت کو ایجنٹ مقرر کر رکھا تھا ، بلکہ اس
فاسقانہ عمل کیلئے اس نے خفیہ کلب (النادی السری ) بنارکھا تھا وہ بھی اپنے باپ کی
طرح مختلف امراض خبیثہ کا شکار تھا اور 26فروری 1955ء سے اس پر بیماریوں کا سخت
حملہ ہوا 1957ء میں مرض نے مزمن شکل اختیار کرلی اور 1965ء میں یہ بھی دنیا سے
رخصت ہوگیا ۔(قادیانیت اپنے آئينے میں
ص/159 تا 199)
(القادیانیۃ احسان الہی ظہیر ص/56)
محمد علی لاہوری کا شمار
قادیانیت کے مؤسیسن میں سے کیا جاتاہے ، اس نے غلام احمد قادیانی کو فکری اور قلمی
اعتبار سے بھر پور تعاون دیا یہ شخص انگریزی حکومت کا زبردست وفادار اور پٹھو تھا
۔ ان کی اطاعت پر لوگوں کو اکساتا تھا اور غلام احمد قادیانی اور اس کے خاندان کے
ساتھ مضبوط روابط رکھتا تھا ۔
قادیانیت
میں تقسیم کے اسباب :-قادیانیت کے تقسیم کے اسباب میں چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ
غلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ان اموال و جائداد کی تقسیم جو اس کے ہاتھوں میں
رہے ہیں کی بابت اختلافات پیدا ہوئے جس کے سبب قادیانیت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔
لیکن یہ اختلافات شخصی اور ذاتی تھے اور قادیانیت کی ترویج و اشاعت پر اس کا کوئی
اثر نہيں ہوا۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->صاحب "قادیانیت اپنے
آئینے میں" لکھتے ہیں ۔یہ مکمل حقیقت ہے کہ دونوں پارٹیوں میں اختلافات
اقتداء کیلئے تھا ، لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں پارٹیوں نےاپنے آپ کو برحق اور مخالف
کو غلط ثابت کرنے کیلئے کچھ بنیادی مسائل اور معتقدات کو نشانہ بنایا ، چنانچہ سب
سے اہم مسئلہ مرزا صاحب کی نبوت کی حیثيت کا کھڑا ہوا۔
دونوں
جماعتوں میں فرق:-
n قادیانی پارٹی مصر تھی کہ مرزا صاحب
مستقل نبی ، حقیقی نبی ، شرعی معنی اور اصطلاحی معنی کے رو سے نبی ، مطاع الانبیاء
اور افضل المرسلین تھے ۔
جبکہ لاہوری پارٹی ان
معانی میں مرزا کو نبی ماننے کیلئے تیار نہ تھی ، ان کا کہنا تھا کہ مرزا صاحب صرف
مجدد القران الرابع عشر اور مسیح موعود تھے ، اور حقیقی و شرعی معنی میں نبی نہ
تھے البتہ آپ بروزی ، مجاز ، غیرشرعی اور لغوی نبی تھے جسے دوسرے لفظ میں محدث کہا
جاتا ہے ، یہی وجہ ہےکہ قادیان کی جماعت اس لاہوری گروپ کو منافقین کے لقب سے یاد
کرتی رہی ہے ۔
n اسی طرح عامۃ
المسلمین کی تکفیر میں بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان اختلاف ہوا۔ مرزا محمود اور ان
کی پارٹی کے عوام و خواص مرزا صاحب پر ایمان نہ لانے اور ان کی بیعت میں داخل نہ
ہونے والے ہر مسلمان کو کھلے اور دوٹوک لفظوں میں کافر کہتے تھے ۔
جبکہ لاہوری پارٹی کے
دوراندیش لوگ ایسے مسلمانوں کو صراحتا کافر کہنے کے بجائے صرف فرقہ ناجیہ سے خارج
قرار دینے پر اکتفاء کرتے تھے۔
nبعد میں چل کر دونوں
پارٹیوں میں ایسی شدت آئی کہ ہر ایک نےدوسرے پر کفر و ارتداد کا فتوی لگا یا۔
مولوی محمد حسن امروہی نے بشیرالدین محمود کے تمرد واسکتبار اور استغفاء سے تنگ
آکر بصد حسرت و یاس قادیان سے رخصت ہوگئے اور لاہوری پارٹی سے جاملے۔(قادیانیت
اپنے آئینہ میں ص/161)
nمرزا محمد سلیم اختر اپنی
کتاب "میں نے قادیانیت کیوں چھوڑی "میں لکھتے ہیں کہ محمد علی لاہوری نے
مرزا غلام احمد کی نبوت کا انکار محض اس لئے کیا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک عزت و
مقام حاصل کرلے۔قادیانیوں کی یہ لاہوری جماعت سب سے مکار جماعت ہے اور قادیانیت کی
ترویج و اشاعت میں زبردست حیلہ کرنے والی جماعت ہے ، اسی جماعت نے ایشیا اور
افریقہ کے اسلامی ممالک میں قادیانیت کو بڑھاوا دیا۔
بیان کیا جاتا ہےکہ محمد
علی لاہوری قادیانی نے قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا اور اسکے اندر
قادیانی فکر و نظر کو بھر دیا ۔قرآن میں تحریف سے کام لیا ، جسکے سبب بہت سے لوگ
اس کی فکر کی قربان گاہ پر چڑھ گئے ، کیونکہ لوگ اس کے نام سے دھوکہ ميں آگئے کہ
یہ ترجمہ تو ایک مسلم شخص کا ہے۔اس ترجمہ میں ایمان بالغیب ، قدرت الہیہ کے افکار
پر کافی تر کیز رہی ہے ۔نیز ختم نبوت کی باطل تاویلات کی گئی ہے ، اس ترجمہ سے اس
کا واحد مقصد شریعت اسلامیہ کے صحیح معانی اور مفاہیم کو بدلنا اور برباد کرنا رہا
ہے۔
خلاصہ کلام
اینکہ مذکورہ بالا اختلافات لفظی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں
جماعتیں غلام احمد قادیانی کی اتباع کرتی ہیں ۔ اس کے کلام و فرامین کو مقدس مانتی
ہیں اور نظریاتی و فکری اعتبار سے دونوں ایک ہیں ، یہ ان کی اپنی ایک سازش رہی ہے
تاکہ مسلمانوں کو دھوکہ دیکر اپنی تائید حاصل کر سکیں ، لہذا ایک صحیح العقیدہ
مسلمان کو ان دونوں جماعتوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہئیے ، بلکہ اسے یہ ذہن میں
رکھنا چاہئے کہ کفر ایک ملت ہے گرچہ اس کی شکلیں اور صورتیں متعدد و مختلف ہیں ۔
قادیانیت
کے اثرات و نفوذ :-
قادیانیت کی اکثریت ہندوستان و پاکستان میں رہائش پذیر ہے ، انہیں
سے کچھ عرب ممالک اور اسرائیل میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ امریکہ ، یورپ ، افریقہ اور
مشرق اوسط میں ان کے مراکز ہیں ، ایک سرسری جائزے کے مطابق پوری دنیا میں 30سے
زائد مراکز ہیں ۔یہ قادیانی استعماری طاقتوں کے سہارے جہاں وہ رہتے ہیں ،کلیدی و
حساس جگہوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔افریقی اور مغربی ممالک میں
قادیانیت کی سرگرمیاں زیادہ ہیں ۔ بلکہ افریقہ میں قادیانی داعیوں کی تعداد پانچ
ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ جو قادیانیت کی ترویج میں مصروف ہیں ۔ استعماری
طاقتیں اور اسلام مخالف جملہ عناصر ان کا مکمل تعاون کرتے ہیں ،اسے اپنا آلۂ کار
بناتی ہیں اور اس کی پرورش کرتی ہیں ، کلیدی عہدوں کیلئے آسانیاں پیداکرتی ہیں ،
خفیہ ایجنسیوں کے اعلی عہدہ و مقام پر فائز کرتی ہیں ، یہ قادیانی جماعت اپنی فکر
کی ترویج کیلئے ہر قسم کے وسائل کا استعمال کرتی ہیں ۔خصوصا ثقافتی و سائل جس میں
وہ مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔ان کے پاس ہر طرح کے تعلیم یافتہ مثلا ڈاکٹرس ، انجینیرس
اور دیگر علمی میدانوں میں کام کرنے والوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے۔ برطانیہ میں انکا
ایک نجی ٹی وی چینل بھی ہے جو اسلامی ٹی وی کے نام سے جانا جاتا ہے ، قادیانیت کے
اسرائیل کے ساتھ مضبوط روابط ہیں اس میں انہیں کھلی آزادی ہے، اسرائیل نے اپنے
مدارس و مراکز کھولنے کی کھلی آزادی دے رکھی ہے ۔ اسی طرح کتابوں اور پمفلٹ کی
طباعت و تقسیم کی پوری دنیا میں اجازت دے رکھی ہے ۔
قادیانیت
کے پھیلنے کے اسباب :- ان اسباب کو ذیل کے چند نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->صحیح دین اسلام جو اللہ
تعالی کا پسندیدہ دین ہے اس کی حقیقت سے اکثر و بیشتر لوگوں کی جہالت اور عدم
واقفیت سب سے اہم سبب ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقلد ہے اور مقلد ہر قسم کی دعوت سے
متاثر ہوجاتا ہےاور جوش و خروش اور چیخنے پکارنے والے کی تقلید کر بیٹھتا ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->مادی و معنوی طورپر
استعماری طاقتوں کی پشت پناہی اس خبیث دعوت کی ترویج کے باب میں دوسرا بڑا اہم سبب
ہے، استعماری طاقتوں کی ایسی عیاری عالم اسلام میں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے ، اور آج
بھی جاری و ساری ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->عیسائی مشنری کی طرح
قادیانیت بھی مالی تعاون کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دام میں پھانستی ہے ، مسلم
سوسائٹی میں اسکول و اسپتال قائم کر کے اور رفاہی کام کرکے ، کتابیں و پمفلٹ تقسیم
کر کے ، اور اچھے و ظائف کی لالچ دیکر اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->اکثر مسلمان قادیانیت کی
حقیقت ، اصلیت اور اس کے مقاصد سے ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں جس کے سبب وہ قادیانیت
کا شکار ہو بیٹھے ہیں، یہ قادیانی مبلغین انہیں باور کراتے ہیں کہ قادیانیت اور
اسلام دونوں ایک ہی چیز ہے ، بلکہ قادیانیت اسلام کی خدمت ہی کیلئے ہے ۔
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->قادیانیت کے خلاف علماء
اسلام کی صحیح انداز میں عدم بیداری بھی ایک سبب ہے ، جبکہ ہر دور میں علماء کی
حمایت ہمیشہ اس کے افکار و خیالات سے نبردآزما رہی ہے۔
اتباع قادیانیت کی علامت و خصوصیت :-
یوں تو قادیانیوں کی کوئی
خاص ایسی علامت و خصوصیت نہیں ہے جو انہیں دیگر مسلمانوں سے ممیز کر سکے، وہ اپنا
نام اسلامی نام رکھتے ہیں ان کا ظاہری مظہر مسلمانوں جیسا ہوتا ہے ،یہی ان کی سب
سے بڑی خطرناکی ہے جس سے مسلمان دھوکہ میں آجاتا ہے ۔ یہاں دوباتوں کی طرف اشارہ
کیا جاتا ہے جس پر توجہ ہونی چاہئے ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->قادیانیت کے داعی جب
مسلمانوں میں اپنی دعوت کا آغاز کرتے ہیں تو وہ اسلامی داعیوں کے مظہر میں لوگوں
کے درمیان اپنی باتیں پیش کرتے ہیں اور اپنی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے بعثت اور
تجدید کے کلمات کا تذکرہ کرتے ہیں یہ محض بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دام فریب
میں جکڑ نے کیلئے کرتے ہیں اور جو ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے اس کے ذہن و دماغ میں
قادیانی مذہب ہی صحیح اسلام ہے ، راسخ کرتے ہیں۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->مرزا غلام احمد قادیانی
نے اپنے افکار و خیالات کی دعوت بتدریج پیش کی، جیسا کہ سابقہ صفحات میں اس جانب
اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ اسی طرح قادیانی داعی بھی بسا اوقات مرزاغلام احمد کی قدیم
عبارتوں جس میں ادعاء نبوت سے قبل مدعی نبوت کی تکفیر کی تھی اس کے ذریعے مرزا کے
جدید نظریہ یعنی ادعاء نبوت کے دعوی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور مرزا کو
عیسی u کے بجائے مسیح
موعود ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔
مسلمان
قادیانیت کی نظر میں :-
قادیانی اسلام اور
مسلمانوں سے کافی دور ہیں ۔قادیانیت اسلام کی راہ کا روڑہ ہے ، اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام
کے عقیدہ و فکر اور اس کی روح بدل کر مسلمانوں میں اپنی فکر رواج دیدیں ، یہی وجہ
ہے کہ قادیانی اصحاب رسولe اور اتباع قادیانی
میں مقارنت کی کوشش کرتے ہیں ، چنانچہ قادیانی جریدہ " الفضل " یہ بیان
جاری کرتا ہے کہ اصحاب رسولe اور تلامذہ و اتباع
قادیانی میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ اصحاب رسولe بعثت
اولی کے رجال تھے اور یہ لوگ بعثت ثانیہ کے رجال ہیں ۔ اسی طرح یہ قادیانی قادیان
کی زیارت کو حج اکبر قرار دیتے ہيں۔ قادیانی کی قبر کی زیارت مسجد نبوی کی زیارت
اور مدینہ میں رسولe پر صلاۃ و سلام کے
مثل قرار دیتے ہیں حتی کہ اتنی جسارت کر بیٹھے کہ اسلام میں مقدس مقامات ثلاثہ میں
سے مسجد اقصی کی تاویل قادیان کی مسجد سے کر بیٹھے ، مسلمانوں کے ساتھ درج ذیل
معاملات اور سلوک کو بھی روا رکھا ۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->مسلمان جب تک قادیانیت
میں داخل نہ ہوجائیں ، کافر ہیں کیونکہ یہ رسولوں کے مابین تفریق کرتے ہیں اور
اللہ کہتا ہے،"لانفرق بین احد من رسلہ " کہتے ہیں کہ اسلام اور اس کے
نبی پر ایمان رکھنے والا جب تک قادیانیت اور اس کے نبی پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر
ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->کوئی مسلمان مرجائے تو
قادیانی کیلئے اس پر صلاۃ جنازہ نہیں ہے ، اور نہ ہی اس کے قبرستان میں دفن کرنا
درست ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->کسی مسلمان سے قادیانی
عورت یالڑکی کا نکاح جائز نہیں ، البتہ مسلم لڑکیوں سے قادیانی شادی کر سکتا ہے
جیسا کہ اہل کتاب کا معاملہ ہے۔
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->مسلمان کے پیچھے کسی
قادیانی کی صلاۃ درست نہیں ، خواہ وہ کتنے بلند رتبہ کا حامل ہو، اور اگر کسی نے
مصلحتا یا بطور تقیہ ایسا کرلیا تو حتمی طور پر صلاۃ کا اعادۃ کرنا ضروری ہے ،
گرچہ اس نے یہ نماز حرمین شریفین میں سے کسی میں بھی ادا کیا ہو۔
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->مسلمانوں کے اجتماعات
خواہ خوشی کے ہوں یا غمی کے ، قادیانی کو اس ميں حاضر ہونا جائز نہیں ، بلکہ
مسلمانوں کیلئے ترحّم اور استغفار بھی جائز نہیں ، ان کا یہ فتوی ہے کہ کوئی
قادیانی مسلمان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے یا اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے یامؤددت و
دوستی کا اظہار کرتا ہے تو اس پر بھی صلاۃ جنازہ جائز نہيں ۔
یہ چند نکات ہیں جس سے
مسلمانوں کے تئیں قادیانیت کی فکر و نظر کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
دیکھیں ؛ " انوار
خلافت مرزا محمود احمد ص/92
، جریدۃ الفضل قادیانی 26 جنوری 1922ء ،
ملفوظات احمدیہ 4/146 ، برکات خلافت محمود احمد ص/75 ، آئینہ صداقت مرزا محمود احمد ص/91 ،
جریدۃ الفضل 18 جون 1916ء ، جریدۃ
الحکم 10 دسمبر 1904ء ، اربعین غلام احمد ص/ 34"
قادیانیوں
پر حکم :-
قادیانیت کی اس مختصرسی داستان سے ان کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے،
نیز قادیانیت کا مسیحیت ، یہودیت اور حرکات باطنیہ سے متاثر ہونا ان کے عقیدہ اور
فکر و نظر کی راضح دلیل ہے ۔گرچہ ظاہری طور پر وہ اسلام کے دعویدار ہیں ۔ جبکہ امت
اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قادیانی مذہب کے متبعین اسلام سے خارج ہیں۔ اس
بابت عالم اسلام کے علماء کے فتاوے کثرت سے صادر ہوئے ہیں۔ مولانا محمدحسین
بٹالویؒ کی کتاب ’’ متحدہ ہندوستان کے علماء کا متفقہ فیصلہ ’‘ کافی معروف و مشہور
ہے۔
قادیانیت کے خطرات سے
نپٹنے کیلئے چند باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئیے۔
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->قادیانیت کی حقیقت ، ان
کے عقائد ، ان کی پلاننگ اور اسالیب کو کھول کر عوام الناس کے سامنے بیان کیا جائے
ان کی بابت مسلم علماء کے فتاوے نشر کئے جائیں ،اور ان کے اسلام سے خارج ہونے کا
اعلان پر وسیلے اور ذریعہ سے کیاجائے۔
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->ان کے ساتھ تعامل سے
احتراز کیا جائے ، اقتصادی ، اجتماعی اور ثقافتی ہر طرح سے بائیکاٹ کی کوشش کی
جائے۔
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->عالم اسلام کے اندر ان کی
تخریبی سرگرمیوں کا مقابلہ اور ہر طرح سے ان کا قلع قمع کرنے کی جدوجہد کی جائے۔
اللہ رب العزت اپنے دین کا حامی ہو اور مسلمانوں کو
ایسی باطل تحریکات سے محفوظ رکھے اور دین میں ثابت قدمی عطاء فرمائے۔ آمین
مراجع للتوسع
<!--[if !supportLists]-->(1)
<!--[endif]-->فرق معاصرۃ تنتسب إلی
الاسلام ۔ دکتور غالب
العواجی
<!--[if !supportLists]-->(2)
<!--[endif]-->الموجز فی الادیان
والمذاھب المعاصرۃ ۔ د ناصر عبدالکریم العقل
<!--[if !supportLists]-->(3)
<!--[endif]-->الموسوعۃ المیسرۃ فی
الادیان والمذاھب المعاصرۃ ۔ الندوۃ
العالمیۃ للشباب الاسلامی
<!--[if !supportLists]-->(4)
<!--[endif]-->القادیانیۃ دراسۃ
وتحلیل ۔ احسان الہی ظہیر
<!--[if !supportLists]-->(5)
<!--[endif]-->القادیانیۃ ۔
السید ابوالاعلی المودودی
<!--[if !supportLists]-->(6)
<!--[endif]-->القادیانیۃ ۔
السید ابوالحسن علی میاں الندوی
<!--[if !supportLists]-->(7)
<!--[endif]-->القادیانیۃ ۔
السید محمد الخضر حسین
<!--[if !supportLists]-->(8)
<!--[endif]-->تاریخ قادیانیت ۔
شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسریؒ
<!--[if !supportLists]-->(9)
<!--[endif]-->تاریخ مرزا ۔
شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسریؒ
<!--[if !supportLists]-->(10) <!--[endif]-->مرزائیت اور اسلام ۔ احسان الہی ظہیر
<!--[if !supportLists]-->(11) <!--[endif]-->تاریخ محاسبئہ قادیانیت
۔ پروفیسر خالد شبیر احمد
<!--[if !supportLists]-->(12) <!--[endif]-->تحریک ختم نبوت
۔ ڈاکٹر بہاءالدین
<!--[if !supportLists]-->(13) <!--[endif]-->شہادۃ القران فی نزول عیسیٰؑ
۔ میر ابراھیم سیالکوٹی
<!--[if !supportLists]-->(14) <!--[endif]-->ختم نبوت ۔ حافظ محمد
گوندلوی
<!--[if !supportLists]-->(15) <!--[endif]-->التصریح فی نزول المسیح
۔ علامہ انور شاہ کاشمیری
<!--[if !supportLists]-->(16) <!--[endif]-->۔۔۔۔قادیانی مذہب ۔ پروفیسر الیاس برنی
<!--[if !supportLists]-->(17) <!--[endif]-->فتنئہ قادیانیت ۔ عتیق
الرحمٰن عتیق (سابق قادیانی مبلغ)
<!--[if !supportLists]-->(18) <!--[endif]-->قادیانیت اپنے آئینے میں
۔ صفی الرحمٰن مبارکپوری
<!--[if !supportLists]-->(19) <!--[endif]-->میں نے قادیانیت کیوں چھوڑی
۔ مرزا محمد سلیم اختر
<!--[if !supportLists]-->(20) <!--[endif]-->موسوعۃ الفرق ۔ الدرالسنیۃ
۔ http/dorar.net.Firaq