شیعہ

کل ملاحظات : 305
زوم ان دور کرنا بعد میں پڑھیں پرنٹ کریں بانٹیں

فرقہ باطلہ

شیعہ

شیعہ کے نزدیک معتبر کتب احادیث

شیعہ اپنی احادیث کے سلسلے میں جن کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ اصل چار کتابیں ہيں جس پر حدیث اور عمل کا دارومدار ہے اور وہ حسب ذیل ہے۔

(1)الکافی فی اصول والفرو‏ع                               محمد بن یعقوب الکلینی   کنیت ابو جعفر     الملقب بثقۃ الاسلام                وفات 326ھ

یہ کتاب کتب اربعہ اور اصول معتمدہ میں سب سے اجل اور اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کی اکثروبیشتر  روایات کا سلسلہ نبیe یا اوائل ائمہ تک نہیں پہنچتا کیونکہ انکے نزدیک حدیث وہ ہے جو ائمہ میں سے کسی ایک سے مروی ہو لہذا ان کے نزدیک ان ائمہ اور نبی کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ اس کتاب کی اکثر روایات جعفر الصاد‍ق کے حوالے سے مروی اور منقول ہے ۔ شیعہ کے نزدیک اس کتاب کا مرتبہ اور مقام وہی ہے جو مرتبہ اہل سنت کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے۔

(2)من لا یحضرہ الفقیہ                    محمد بن علی ابن حسین ابن موسی ابن بالویہ القمّی  المشھور  بالصادق                             وفات 381ھ

یہ کتاب شیعہ کے نزدیک فقہی مسائل کی ایک خاص کتاب ہےاور وہ ایک ایسی کتاب ہےجس کے اندر مؤلف نے سندوں کا ذکر نہیں کیا ، بعض شیعہ عالم نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ صاحب کتاب نے یہ انداز اختصار کے پیش نظر اور کثرت طرق کے سبب کتاب کے ضخیم ہو نے کے پیش نظر اسناد کا تذکرہ نہیں کیا۔

(3)تھذیب الاحکام                         محمد بن حسن ابو جعفر الطوسی  المعروف  للشیخ الطائفہ                        وفات 460ھ

اس کتاب کا تعلق بھی فقہی فروعات سے ہے۔

(4)استبصار فی ماختلف من الاختبار

یہ کتاب سابقہ کتاب کا اختصار ہے ۔ یہ کتاب تین جزو میں ہے ، دو جزو کا تعلق عبادات سے ہیں اور تیسرے جزو کا تعلق بقیہ فقہی ابواب سے ہے ۔ اس کتاب کے اندر 393 ابواب ہیں اور حدیثوں کی تعداد 5511ہے۔یہ چاروں کتابیں شیعہ حضرات کے یہاں  الاصول الاربعہ المعتمدہ کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں ۔شیعہ عامل فیض الکاشانی کا بیان ہے "ان مدار الاحکام الشرعیہ الیوم علی ھذہ الاصول الاربعہ وھی المشھود علیھا بالصحۃ من مؤلفھا۔

(5)الوافی                                محمد ابن شاہ مرتضی ابن شاہ محمد المدعو بمحسن                                      وفات 1091ھ

اس کتاب کے اندر مؤلف نے سابقہ چاروں کتابوں کو جمع کردیا ہے اور ان کی احادیث اور مشکل کلمات کی شرح کی ہے، اس کتاب میں احادیث کی مجموعی تعداد 50000ہے یہ کتاب 14جزو پر مشتمل ہے ، اور اصول و فروع کے احکام پر مشتمل ہے۔

(6)وسائل الشیعہ                                    محمد بن حسن بن علی بن محمد بن حسن الحر العاملی                               وفات    1104ھ

تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ

اس کتاب میں بھی مؤلف نے سابقہ چاروں کتابوں کو جمع کردیا ہے اور فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے ۔ اس کتاب میں حدیثوں کی تعداد 35850 ہے، اور یہ کتاب 20 سال کی مدت میں تالیف کی گئی۔

(7)بحارالانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطھار                    محمد الباقر ابن محمد نقی ابن مقصود علی  ملقب المجلسی              وفات 1111ھ

اس کتاب کے بارے میں مجلسی کا بیان ہے کہ "اجتمع سوی الکتب الاربعاء نحو ۔۔۔۔۔ولقد جمع فی بحار الانوار

(8)کتاب مستدرک الوسائل             مرزا حسین ابن مرزا تقی ابن مرزا علی محمد ابن تقی النوری الطبرسی             وفات  1320ھ

اس کتاب میں احادیث کی تعداد 23000 جس کو متفرق جگہوں سے اخذ کر کے جمع کیا ہے اور فقہی ابواب پر کتاب "وسائل الشیعہ "کے انداز پر جمع کیا ہے ۔

 

مراجع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ چند اور کتابیں جو شیعہ کے یہاں اہمیت کی حامل ہیں ۔

(1)الحکومۃ الاسلامیۃ                                                    روح اللہ الخمینی

(2)عایان الشیعہ                                                     محسن الامین العاملی

(3)اصل شیعہ و اصولھا                                              محمد حسین الکاشف الغطا

(4)فصل الخطاب فی تحریف الکتاب رب الارباب                                       حسین نوری طبرسی

(5)احقاق الحق و ازھاق الباطل                                             نورالحسین المرعشی

(6)امل الامل                                                        محمد بن حسن الحر العاملی

شیعہ :- مادہ ش ی  ع  ہے ۔ شایع    یشایع   مشایعۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی متابعت کر نا  ، کسی کے پیچھے چلنا کے ہیں ۔

شیعہ ، اسم  بمعنی دوست ، پیروکار ، جماعت ،گروہ ، رفقاء ، مددگار اور ایک جیسی راۓرکھنے والے لوگ اور کسی کے پیچھے چلنے والے وغیرہ جیسے معنی کیلۓ آتاہے۔

عموما شیعہ کا لفظ واحد و جمع ، مذکر و مؤنث دونوں کیلۓ یکساں استعمال کیاجاتاہے ۔ اسکی جمع ، شیع و اشیاع آتی ہے۔

ابن منظور نے اپنی کتاب لسان العرب میں یوں بیان کیا ہے "و اصل الشیعہ الفرقۃ من الناس و یقع علی الواحد و الاثنین و الجمع و المذکر و المؤنث بلفظ واحد و بمعنی واحد و قد غلب ھذا الاسم علی من یتولی علیا اھل بیتہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حتی صار لھم اسما خاصا فاذا قیل فلان من الشیعۃ عرف انہ منھم ، وفی مذھب الشیعۃ کذا اي عندھم ۔

واصل ذلک من المشایعۃ وھي المتابعۃ المطالعۃ ۔(لسان العرب لابن منظور       ج/8      ص/288)

و فی المصباح المنیر    للفیومی   "الشیعۃ الاتباع والانصار و کل قوم اجتمعوا علی امر فھم شیعہ ثم صارۃ الشیعۃ اسما لجامۃ مخصوصۃ و لجمع 'شیع '                  (ص/329)

قرآن کریم میں بھی شیعہ کا کلمہ مختلف معنی کیلۓوارد ہوا ہے۔

(1)الفرقہ و لامۃ و الجماعۃ من الناس       گروہ کے معنی میں

کقولہ تعالی :- ثم لننزعن من کل شیعۃ ايھم اشد علی الرحمن عتیا، (اي من کل فرقۃ و جماعۃ وامۃ )

(2)الفرقۃ              اختلاف

ان الذین فرقو دینھم و کانوا شیعا۔۔۔    ، و ان فرعون علی فی الارض و جعل اھلھا شیعا ۔۔

(3)امثال و نظائر اور پیش رو

کقولہ تعالی : ولقداھلکنا اشیاعکم فھل من مدّکر (اي اشیاعکم فی الکفر من الامم الماضیہ )

و حیل بینھم و بین ما یشتھون کما فعل باشیاعھم من قبل ۔۔۔۔

(4)المتابع الموالی والموالی المواصر اور ہم مشرب

فوجدا فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ و ھذا من عدوہ

(5)پیروکار   

کقولہ تعالی  : وان من شیعتہ لابراھیم اذ جاء ربّہ بقلب سلیم

اصطلاحی تعریف :- (1)حقیقت شیعہ اور اس کی تعریف کے سلسلے میں اہل علم کا نقطۂ نظر مختلف ہے چنانچہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ شیعہ یہ 'علم ' ہے اور اس کا اطلاق تغلیبی طور پر ہر اس شخص پر کیا جاتاہے جو علی tاور اس کے اہل بیت سے ولایت و محبت کا اظہار کرتاہے۔

لیکن یہ تعریف جامع نہیں ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت علی tاور ان کے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت شیعی فکر کے خلاف ہے ۔

(2)شیعہ انہیں کہاجاتاہے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی نصرت و مدد کی اور ان کی امامت کے معتقد ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے ما سبق کی خلافت ظلما رہی ہے ۔

لیکن یہ تعریف بھی جامع نہیں ہے کیونکہ بعض شعیہ بھی شیخین کی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں اور بعض عثمان غنی tسے ولایت اور محبت کرتے ہیں جیسے "یزيدیہ فرقہ"

(3)شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی tکو عثمان غنی tسے افضل مانتے ہیں بالفاظ دیگر علی tکو عثمان tپر فضیلت دیتے ہیں یا مقدم رکھتے ہیں۔

لیکن یہ تعریف بھی جامع نہیں ہے کیونکہ بعض شیعہ عثمان tسے براءت کا اظہار کرتے ہیں ۔

(4)شیعہ نام ہے اس شخص کا یا ان لوگوں کا جو علی tکو خلفاۓ ثلاثہ پر فوقیت دیتے ہیں اور افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ اور نظریہ ہے کہ اہل بیت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور ان کے سوا کی خلافت باطل اور ناحق ہے ۔

مجموعی طور پر یہ تعریف دیگر سابقہ تعریفات کے مقابل جامع ہے۔

شیعیت کا ظہور  :-

        شیعیت کے ظہور کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ۔

(1)ایک یہ کہ شیعیت کا ظہور نبیeکے زمانہ سے ہوا اور یہ نظریہ بعض شیعہ حضرات کا ہے۔ جیسا کہ شیعی عالم  الشیرازی کہتاہے "ان الاسلام لیس سوی التشیع ، والتشیع لیس سوی الاسلام ، والاسلام و التشیع اسمان مترادفان لحقیقۃ واحدۃ انزلھاللہ تعالی و بشربھا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔" (الشیعۃ و التشیع        ص/19)

لیکن یہ قول بلکل غلط اور جھوٹ ہے اور عقل و منطق کے خلاف ہے ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ظلمت سے نور کی طرف رہنمائی اور وثنیت سے وحدانیت اور جمع کلمۃ المسلمین اور عدم تحذب کے لئے ہوئی تھی جیسا کہ کتاب و سنت کے نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں ۔

(2)جبکہ دوسری راۓ یہ ہے کہ شیعیت کا ظہور جنگ جمل سے ہوا اور ابن ندیم اپنی کتاب  الفھرست میں اسی قول کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ اس جنگ میں جو لوگ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کررہے تھے انہیں اس وقت کے شیعہ سے موسوم کیا گیا ہے ۔(الفھرست    ابن ندیم    ص/249)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کا لفظ کسی کے حامی ، ساتھی اور رفیق کےلۓ استعمال کیا جاتارہا ہے جیسے شیعان علی ، شیعان معاویہ یا حامیان معاویہ و علی ، مگر جنگ جمل اور صفین نے علی رضی اللہ عنہ کے طرفداروں کو خصوصی طور پر اس نام سے نمایاں کردیا اور پھر عام طور پر یہ لفظ علی رضي اللہ عنہ کے حامیوں کیلۓ استعمال ہونے لگا بعدازاں اس نام سے ایک فرقہ مشہور ہو گیا۔

(3)شیعیت کا ظہور جنگ صفین سے ہوا جبکہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے خوارج نکل گۓ تو ان کے مقابل میں علی رضی اللہ عنہ کے اتباع و انصار کی شکل میں ایک جماعت کا ظہور ہوا ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ خوارج کے مقابلے میں علی رضی للہ عنہ کے اتباع و انصار کی شکل میں یہ لوگ ظاہر ہوۓ اور تشیع کا فکرہ دھیرے دھیرے زور پکڑتا گیا۔(اسی قول کو راجح قرار دیا ہے اور شیعہ کے علما نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور علما ء سنت میں سے ابن حزم اور احمد امین مصری وغیرہ نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے ۔)    (الشیعہ و التشیع        ص/25)

تشیع کا معنی علی رضی اللہ عنہ و اہل بیت سے محبت ، مناصرت و میلان کا بھی لیاجاتا ہے ۔ اگر تشیع کہنا جائز سمجھا جاۓ نہ کہ تشیع کاھ سیاسی معنی مفہوم جو شیعہ کے یہاں پایا جاتا ہےکیونکہ یہ شیعان اہل بیت نہیں ہے بلکہ یہ اہل بیت کے دوشمن اور ان سے اکثر و بیشتر بدعہدی کرنے والے لوگ ہیں۔

(4) شیعیت کا ظہور حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کے بعد ہوا ‏، چنانچہ کامل مصطفی ایک شیعی عالم کا یہ خیال ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تشیع یا شیعیت کا ایک خاص تابع کی شکل میں ہوا ۔

(الصلہ بین الشیعہ و التشیع          ص/32)

(5)عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں اس شیعیت کی بنیاد پڑی اور علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ فرقہ پھلا پھولا اور آگے چل کر کے مسلمانوں کا ایک سیاسی فرقہ ک حیثیت سے نمودار ہوا جو اہل سنت والجماعت کے فرقوں سے ایک الگ فرقہ ہوا۔

شیعیت کے مفھوم کا تطور اور مراحل

(پہلا مرحلہ) تشیع کا مدلول اور مفھوم فتنہ کے ابتدائی دور میں علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں علی رضی اللہ عنہ کی مناصرت اور ان کی حمایت کی صورت میں ظاہر ہوا ، تاکہ خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کے سلسلے میں وہ اپنا حق لے سکے چنانچہ ان کے اعوان و انصار میں سے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور غیر صحابہ بھی رہےہیں، اس طور پر کہ سب کا خیال یہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ مقابل خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر لوگوں کا اتفاق تھا لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس سےیہ سمجھا جاۓ کہ یہی لوگ شیعہ کی اساس ہیں یا شیعہ کے اوائل میں سے یہی لوگ ہیں کیونکہ یہ تمام لوگ شیعان علی رضی اللہ عنہ اور ان کے انصار و معاون و مددگار رہے ہیں ۔

(دوسرا مرحلہ)اس کے بعد تشیع کا انحصار تمام صحابہ پر حتی کہ شیخین (ابوبکر و عمر) رضی اللہ عنہما پر علی رضی اللہ عنہ کی تفضیل کی طرف منتقل ہو گیا ۔چنانچہ ذکر کیا جاتا ہےکہ علی رضی اللہ عنہ نے اس فکر کے حامل لوگوں پر تعذیری سزا کی دھمکی بھی سنائی اور اقامت حد کی وعید بھی سنائی ۔اس مرحلہ میں شیعان علی رضی اللہ عنہ معتدل تھے چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین میں سے کسی کی وہ تکفیر نہیں کرتے تھے نہ ہی کسی صحابہ کی تکفیر کرتے اور نہ ہی کسی کو سب و شتم کرتے البتہ علی رضی اللہ عنہ کی جانب عاطفت یہ میلان کا نتیجہ رہا ہے، اس موقف کے حامی ابوالاسود الدولی اور عبدالرزاق صاحب المصنف وغیرہ ہیں ۔
(تیسرا مرحلہ)اس کے بعد تشیع رفض کی طرف منسوب ہو گیا یعنی صحابہ کو سب و شتم کرنا  اور ان کی تکفیر کرنا سواۓ چند صحابہ کےاور اس فکر اور دعوت کا سب سے اہم ذمہ دار "عبداللہ ابن سبا" رہا ہے یعنی تشیع میں تطرف پیدا ہوگيا ، حق سے دوری پیدا ہوگئی ، ابن سبا کے غلط افکار کے غلط ثمرات ظہور پذیر ہونے لگے ، سبّ صحابہ اور ان کی تکفیر اور ان سے براءت اظہار جیسے خیالات جنم لینے لگے ، چند صحابہ جیسے سلمان فارسی ، ابوذرغفاری ،مقداد بن اسود ، عمار بن یاسر اور حذیفہ ابن الیسار کو چھوڑکر تمام صحابہ پر سبّ و شتم کر نے لگے ، وہ صحابہ جو 'غدیر خم ' میں موجود تھےان پر تکفیر کا حکم صادر کردیا کیونکہ ان کے زعم کے مطابق وصیت رسول کے ساتھ انہوں نے وفاء نہیں کی اور علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی وصیت کی تنفیذ نہیں کی ، ان خرافات کا خالق اور علمبردار عبداللہ بن سبا تھا۔علی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو اسے شہر مدائن کی طرف شہر بدر کردیا۔

(چوتھا مرحلہ )اس کے بعد تشیع کا مفھوم بعض شیعوں کے یہاں اس حد تک ہو گیا کہ وہ اپنے قول و فکر کے فساد کی بنا پر اسلام سے خارج ہو گۓ ، اس طور پر کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی الوھیت کا نعرہ اور دعوی کربیٹھے اس طبقہ کی زعامت ابن سبا نے کی اور بیشتر جاھلوں کے نزدیک اور اسلام حقد اور دوشمنی رکھنے والوں کے یہاں ابن سبا کے اس فکر کی پذیرائی ہوئی چنانچہ ذکر کیا جاتاہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو جب اس بابت پتہ چلا تو ایسے لوگوں کو آگ میں جلانے کا حکم صادر فرمایا اور اس باطل فکر کا  زعیم اوّل عبداللہ ابن سبا یہودی رہا ہے۔

 

اسماء الشیعہ  :-

(1)شیعہ  :- ان کے مشہور اسماء میں سے ایک نام شیعہ ہے اور یہ نام ان کے تمام فرقوں کو شامل ہے ۔ اور یہی نام رافضیت اور زيدیت کے وجود سے پہلے اسی نام سے موسوم کیا جاتارہا ۔ان تمام پر شیعہ کے اطلاق پر علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے ، بحیثيت علم کے ۔

(2)رافضہ  :- انہیں اس نام سے اسوقت موسوم کیا گیا جب انہوں نے زید بن علی کا رفض کر دیا اور ان کے رفض کرنے کی بنا پر انہیں رافضہ کہا گيا۔

رافضہ اس جماعت کا نام ہے جن کے کچھ خاص افکار اور اعتقادی راۓ ہیں جنہوں نے شیخین کی خلافت کا اور اکثر صحابہ کا رفض و انکا ر کردیا اور ان کا یہ الزام رہا ہے کہ خلافت کا حق نبیۖ کے بعد علی ابن ابی طالب اور ان کی ذرّیت کا حق رہا ہے اور یہ حق بھی نبیۖ سے منصوص ہے۔ رافضہ کی اس جماعت کو جعفریہ ، امامیہ ، اثنی عشریہ اور اپنی طرح رافضہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ بعض باحثین کا یہ کہنا ہےکہ شیعہ کی اصطلاح مطلق طور پر استعمال کیا جاۓ تو اس سے یہی رافضہ مراد ہوتےہیں اور ان کے علاوہ یا تو اسماعیلیہ یا زيدیہ ہوں گے گویا ان کے ناموں سے ذکر کیا جاتاہے ۔یہ قول علماء شیعہ کی ایک جماعت کا ہے۔ جعفریہ کی طرف نسبت جعفر الصادق کی طرف جو سلسلۂ امامت کے چھٹے امام ہیں ، کی طرف کیا جاتا ہے ۔ شیعہ 'کشّی ' کا بیان ہے کہ "کوفا میں جعفر صادق کی جماعت کو جعفریہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔(التقریب         ج/1     ص/172)

اور انہیں رافضہ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔یہ لفظ اس جماعت کے لۓ بطور مدح کے استعمال کیا جاتاہے ، جیسا کہ مجلسی نے اپنی کتاب البحار میں جعفر الصادق کا قول ذکر کیا ہے کہ جب ان سے اس نام کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا "ان سبعین رجلا من عسکر موسی علیہ السلام لم یکن فی قوم موسی اشد اجتھادا و اشد حبا لھارون علیہ السلام منھم فساھم "الرافضۃ" فاو حی اللہ الی موسی ان ا۔۔۔۔ھذا الاسم فی التوراۃ فانی نحلتھم  و ذالک اسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قال ابوالحسن الاشعری ، سموا رافضۃ لرفضھم امامۃ ابی بکر و عمر و رفضھم اکثرھم الصحابۃ ۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ "ان کا نام رافضہ زید بن علی بن حسین کے رفض کی جانب کی بنا پر اس نام سے موسوم کیا گیا ۔"

انہیں امامیہ بھی کہا جاتاہے کیونکہ یہ لوگ ہر زمانے میں امامت کے وجوب اور ائمہ کے وجود کے قائل ہیں ، اور اس امامت کو انہوں نے نص جلی سے واجب قرار دیا ہے اسی طرح انہوں نے ہر امام کیلۓ عصمت اور کمال کے قائل ہیں اور پھر انہوں نے امامت کو حسین ابن علی کی اولاد میں محصور کردیا ہے ، انہیں اثنی عشریہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے کیونکہ یہ اس بات کے قائل ہیں کہ رسولeکی وفات کے بعد امامت بارہ اماموں پر یا سلسلہ امامت بارہ ائمہ تک محدود ہے،اور یہ لوگ اپنے لۓ اور اپنی جماعت کےلۓ خواص کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے سوا دوسروں کو عامہ کے نام سے یاد کرتے ہیں جیسا کہ یہود کا شیوہ رہا ہے ۔رافضہ کا یہ فرقہ اپنے عقا‏ئد میں اعتدال کے مسلک کا پیروکار ہے اور امامت صحابہ ، رجعت ، غیبت وغیرہ جیسے مسائل اور عقائد میں یہ جماعت منفرد ہے ۔اور یہ جماعت اپنے دین اور عقائد کو اپنے خاص مصادر ہی سے اخذ اور تلقی کرتی ہے۔ یہ جماعت عصر حاضر میں شیعہ جماعت کا سب سے بڑا فرقہ ہے ، اور اس کے اتباع و انصار ایران ، عراق ، لبنان ، قطیف ، (سعودی عرب ) کویت ، پاکستان ،ہندوستان وغیرہ ممالک میں پاۓجاتے ہیں ، ایران میں ان کی اپنی حکومت بھی ہے۔

(3)زیدیہ  :- زید بن علی کی طرف نسبت کرتے ہوۓ شیعہ کی ایک جماعت کو زیدیہ کہاجاتا ہے ۔ بعض لوگ زیدیہ کا اطلاق بھی تمام شیعوں پر کرتے ہیں ۔

یہ تینوں مذکورہ اسماء بعض علماء کی تحریروں میں شیعہ فرقوں سے تعبیر کیے گۓ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رافضہ کا اطلاق علی العموم الشیعہ پر جس میں کہ زیدیہ بھی شامل ہے ، جس کی نشوونما پہلی صدی ہجری کے آخر میں ہوئی درست نہیں ہے کیونکہ رافضہ کا نام زيد بن علی کے قول سے بعض شیعہ کو موسوم کیا گیا ہے جبکہ انہوں نے یہ جملہ استعمال کیا تھا  "رفضتمونی " چنانچہ انہیں رافضہ کہاگیا اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ رافض کے عقیدہ پر نہیں تھے بلکہ وہ اسوقت بھی رافض تھے کیونکہ انہوں نے زيد بن علی سے اپنی طرح رافض ہونے کا مطالبہ کیا تھا جس سے زيد بن علی نے انکار کیا لیکن اس سے پہلے اس نام کی شہرت نہیں تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زيد بن علی سے پہلے شیعہ دوسرےناموں سے جانے جاتے تھے –

 

 

 

 

شیعہ کے مشہور فرقے   :-

        دائرۃ المعارف نامی کتاب میں مذکور ہے کہ شیعی فرقوں کی شاخیں مشہور 73 فرقوں سے کہیں زیادہ ہے۔(دائرۃ المعارف     ج/4     ص/67)

بلکہ میر محمد باقر الاسترآبادی    وفات  1141ھ سے منقول ہے کہ حدیث جس میں امت کے 73 فرقوں میں بٹ جانے کا تذکرہ ہے اس سے مراد صرف شیعی فرقے ہیں اور ان میں نجات پانے والا صرف "فرقۂ امامیہ " ہے۔(الکنی و الالقاب  للقمی       ج/2   ص/226)

مقرزي نے لکھا ہے کہ ان فرقوں کی تعداد تقریبا 300 ہیں۔(الخطط والآثار  للمقرزی      ج/2    ، ص/351)

شہرستانی نے لکھا ہے روافض کی پانچ قسمیں ہیں قیسانیہ ، زیدیہ ، امامیہ ، غالیہ اور اسماعیلیہ۔(الملل و النھل      ص/147)

بغدادی نے لکھا ہے کہ علی رضی للہ عنہ کے زمانے کے بعد رافضیوں کی چار قسمیں ہیں ۔ زيدیہ ، امامیہ ، قیسانیہ ، اور غلاۃ   (الفرق بین الفرق     ص/41)ک

بعض اہل علم نے یہ بھی لکھا ہے کہ غلاۃ کے 24فرقے ، قیسانیہ کے 4 فرقے ، زیدیہ کے 9 فرقے اور امامیہ کے 37 فرقے ہیں ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تحفۃ اثنی عشریہ میں صرف امامیہ کی تعداد 39لکھی ہے جس میں سے اثنی عشریہ اور اسماعیلیہ زیادہ معروف ہے۔ (تحفۃ اثنی عشریہ  مترجم           ص/26 تا 39)

(بحوالۂ علوم الحدیث     عبدالرؤوف ظفر      ص/865)

ان مذکورہ بالا فرقوں سے چار فرقےایسے ہیں جن کا عالم اسلام میں ایک اہم دور رہا ہے عصر حاضر میں ان میں سے زيدیہ ، فرقۂ امامیہ اور رافضہ یا اثنی عشریہ موجود ہے۔

ذیل میں چند فرقوں کا مختصر تعارف   :-

)1)السبیئہ  :- عبداللہ ابن سبا الیھودی کے متبعین کو کہا جاتا ہے۔ عبداللہ ابن سبا نے اہل بیت کیلۓ تشیع کا دعوی کیا اور اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ کو وصی ثابت کرنے کا دعوی کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد علی کی رجعت کا دعوی کیا اور یہ پر چار کیا کہ علی قتل نہیں کیے گۓ ہیں بلکہ آسمان کی طرف اٹھالۓ گۓ ۔ اور پھر رجعت فرمائیں گے اور روۓ زمین پر حکومت کریں گے ، ان تمام دعوی کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی الوھیت کا بھی دعوی اور پر چار کیا اس یھودی  نے اہل بیت کے ساتھ غلو پر تشیع یا شیعیت کی بنیاد ڈالی اور حجاز ، بصرہ ، کوفی اور پھر شام میں اپنے اس پر چار کے ساتھ بڑا نشیط رہا اور مصر کے اندر اس نے اقامت اختیار کی اور خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اور علی رضی اللہ عنہ کی غلو کی بابت ماحول بنایا اور اسلام کے نام پر غیرت کا مظاہرہ کیا اور خلیفہ کو معزول کیے جانے کا مطالبہ کیا اور پھر اپنے اسلام کے درپردہ اہل بیت سے تشیع کا دعویدار ہوا ۔

(2)قیسانیہ  :- محمد بن علی بن ابی طالب      المعروف بابن حنیفیہ  ، کے متبعین کو قیسانیہ کہا جاتاہے، اس جماعت کا ظہور اس وقت ہوا جب حسن ابن علی نے معاویہ کیلۓ خلافت سے تنازل اختیار کر لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایہ جماعت حسن اور حسین دونوں سے دور ہوگئی اور ابن حنیفیہ کے بارے میں یہ نظریہ قائم کیا کہ ابن الحنفیہ علی کے بعد خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور وہ علی بن ابی طالب کے وصی بھی ہیں اور اہل بیت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو ان کی مخالفت کرے یا جو ان کی اجازت کے بغیر خروج کرے ، وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ حسن نے معاویہ  سے قتال کیلۓ خروج کیا اور حسین نے یزید سے قتال کیلۓ خروج کیا ان دونوں کا عمل ابن الحنفیہ کی اجازت سے رہا ۔ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جس نے ابن الحنفیہ کی مخالفت کی وہ مشرک اور کافر ہے ۔ آ‌گے چل کر یہ جماعت مختار ابن ابی عبید السقفی الکذاب کی قیادت میں مختاریہ کے نام سے جانی گئی ۔

(3)زيدیہ    :- زيد ابن علی (زين العابدین )ابن الحسین ابن علی بن ابی طالب (ابوالحسین )الھاشمی العلوی اخو ابوجعفر الباقر (و امّہ ام ولد الامام الخامس للزیدیہ )   ولد 76ھ    وفات 122ھ) کے متبعین کو زیدیہ کہاجاتاہے اس فرقہ کے چند اقوال حسب ذیل ہیں ۔

فرقۂ زيدیہ کے سلسلے میں اہل علم یہ بیان کر تے ہیں کہ یہ فرقہ اہل سنت والجماعت کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ اس جماعت کے اندر اعتدال پایا جاتا ہےاور تطرف اور غلو سے بعد یا دوری پائی جاتی ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امام زید بن علی واصل ابن عطاء کے شاگرد تھے ان پر ان کی تعلیم کا اثر رہا ہے کہ معتزلی فکر زيدیہ افکا ر جو ائمہ اثنی عشریہ میں سے ایک امام شمار کیے جاتے ہیں علم و روایت کو اخذ کیا اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے زید بن علی کی شاگردی اختیار کی اور ان سے علم حاصل کیا ۔

(1)یہ لوگ امامت کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تمام اولاد میں جائز قرار داتے ہیں ، خواہ ان کی اولاد کا تعلق امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہو یا امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہو۔

(2)امامت ان کے نزدیک منصوص نہیں ہے یعنی یہ شرط نہیں ہے بلکہ امامت کا تعلق بیعت سے ہے اولاد فاطمہ سے جو شخص ہو اور امامت کی شرط  اس کے اندر پائی جاتی ہے وہ امامت کا حقدار ہے۔

(3)امام کا مستور ہونا جائز نہیں ہے ، امام کیلۓ ضروری ہے کہ اس کا اختیار اور انتخاب اہل حل و حقد کی طرف سے ہو (ذمہ دار )اور امامت کا اختیار اسی وقت ہوگا جبکہ وہ اپنے بارے میں امامت کی حقیقت کے سلسلے میں مبینہ طور پر اعلان کرے۔

(4)ایک میں زیدیہ کے نزدیک ایک امام سے زائد دو مختلف علاقوں ميں دو امام ہو سکتے ہیں ، اسی طرح امام افضل کی موجودگی میں امام مفضول بھی ہو سکتاہے ،جس کی طرف احکام میں اور قضائی معاملہ میں رجوع کیا جاسکتا ہے۔

(5)زیدیہ کی اکثریت ابوبکر و عمر کی خلافت کا اقرار کرتی ہے ، اور ان پر لعن طعن نہیں کرتی جیسا کہ شیعہ روافض کا عمل ہے بلکہ ان دونوں سے رضا مندی کا اظہار کرتی ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی صحت و درستگی کا اقرار کرتی ہے البتہ بعض امور میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہے ۔

(6)فرقۂ زیدیہ اعتدال کی طرف مائل ہے ، چںانچہ ذات باری تعالی کے سلسلے میں جبرو اختیار کے سلسلے میں اور مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں معتزلہ کا نظریہ پایا جاتاہے البتہ وہ مرتکب کبیرہ کو مخلد فی النار نہیں سمجھتے اور وہ کہتے ہیں کہ ایسا شخص اپنے گناہوں کی تطہیر کے بعد جنت میں منتقل کردیا جاۓ گا ۔

(7)زیدیہ تصوف کے بلکل منکر ہیں اور اسی طرح زواج متعہ کو ناپسند کرتے ہیں اور شیعہ کی مخالفت کر تے ہیں البتہ ضرورت پڑنے پر تقیہ کے جواز کے قائل ہیں ۔

(8)زیدیہ عبادات اور فرائض میں مکمل طور پر اہل سنت کے ساتھ متفق ہیں البتہ چند فروعات میں اختلاف کرتے ہیں جیسے اذان میں شیعی طریقے پر "حي علی خیرالعمل " کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک "صلاۃ الجنازہ "میں پانچ تکبیرات ہیں ، نماز میں ہاتھ کے ارسال کے قائل ہیں ، صلاۃ العید ان کے نزدیک انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں صحیح ہیں ، صلاۃ التراویح کو با جماعت بدعت قرار دیتے ہیں ، فاجر شخص کے پیچھے نماز کا رفض کرتے ہیں اور فرائض وضوء ان نزدیک دس ہیں جبکہ اہل سنت کے یہاں فرائض وضوء کی تعداد چار ہیں ۔

(9)اجتھاد کا دروازہ ان کے نزدیک ہر شخص کیلۓ کھلاہوا ہے جو اجتھاد کرنا چاھے کرے اور اس کی اہلیت رکھتا ہو اور جو اس سے عاجز ہو وہ تقلید کرے اور اہل بیت کی تقلید دوسروں کی تقلید سے بہتر اور اولی ہے۔

(10)جابر و ظالم امام کے خلاف خروج کرنا واجب ہے اور اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں ہے۔

(11)خطاء پر عصمت ائمہ کے قائل نہیں ہے اسی طرح ائمہ کے مرتبہ میں غلو کے بھی قائل نہیں ہے جیسا کہ شیعہ کے اکثر فرقوں کاطریقہ رہا ہے البتہ زيدیہ سے بعض منسوب لوگ اہل بیت کے چار ائمہ کی عصمت کو ثابت مانتے ہیں اور وہ ہیں علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم ۔

(12)زيدیہ مھدیۂ منتظر کے قائل نہیں ہے ، اسی طرح البداء کے نظریہ کے منکر ہيں اور یہ فکرہ مختار الثقفی نے رائج کیا تھا جو شیعوں کے یہاں بھی رواج پاگیا البتہ زيدیہ اس بات کے قائل ہیں اور یہ بات ثابت مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کا علم ازلی ہے قدیم ہے غیر متغیر ہے اور ہر چیز لوح محفوظ میں مکتوب ہے ۔

(13)قضاء اور تقدیر پر ایمان کو واجب مانتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انسان کو اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے سلسلے میں مختار اور آزاد سمجھتے ہیں ۔

(14)زيدیہ کے نزدیک مصادر استدلال کتاب اللہ پھر سنت رسول پھر قیاس اور اسی طرح استحسان اور مصالح مرسلہ اور اس کے بعد عقل اور عقل جس چیز کو صحیح اور حسن قرار دے وہ مطلوب ہوتی ہے اور جس کو قبیح قرار دے وہ منھی عنہ ہوتی ہے ۔(الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاھب المعاصرہ        ص/259  تا   261)

ائمہ الشیعہ اثنی عشریہ

شیعہ اثنی عشریہ کے نزدیک سب سے زیادہ مشہور مجتھد امام جعفر الصادق ہیں ، اس فرقہ کی اپنی فقہ انہی کی طرف منسوب ہیں۔ اس فرقہ کے 12امام حسب ذیل ہیں۔

(1)علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ                     ولد قبل الھجر               23سنہ والتشھد فی عشرین رمضان من 40من الھجرہ

(2)حسن بن علی                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     ولد   2ھ                           وفات   50ھ

(3)حسین بن علی            ولد  3ھ                                    وفات   61ھ

(4)علی بن الحسین         الملقب بزین العابدین                         وفات     94ھ

(5)ابو جعفر محمد بن علی ابن الحسین       الملقب   الباقر                       ولد    57ھ                     وفات 114ھ

(6)ابو عبداللہ جعفر الصادق ابن محمد الباقر                                    ولد   83ھ                                 وفات  148ھ 

(7)موسی الکاظم ابن جعفر الصادق                         ولد 128ھ                                 وفات   183ھ

(8)علی الرضاء ابن موسی الکاظم                                  ولد 148ھ                               وفات203ھ

(9)محمد التقی الجواد بن علی الرضا                                      ولد 195ھ                             وفات  240ھ

(10)علی نقی الھادی ابن محمد تقی الجواد                          ولد 214ھ                                وفات   254ھ

(11)ابو محمد حسن العسکری ابن علی تقی الھادی                     ولد  232ھ                           وفات 260ھ

(12)محمد المھدی ابن الحسن العسکری الامام الغائب            المعروف بالمھدی المنتظر                                    ولد   256ھ

آخری امام کے بارے میں شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ بچپن میں ایک غار میں چھپ گۓ پھر وہ آج تک وہ اس غار سے ان کے کلنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔(حقیقت مذھب شیعہ        فیض عالم صدیقی )

(الشیعۃ والسنۃ         احسان الہی ظہیر )

سبب حصرالامام فی اولاد الحسین

ذکرالعلما ف ذالک سببین

(1)ان لشیعۃ کرہ میل الامام حسن الی الصلح مع معاویۃ و تنازلہ عن الخلافۃ من اجل حقن دماء المسلمین لذا اطلقوا علیہ مزلل المسلمین خازل المؤمنین و حاول قتلھم لکن اللہ نجاۃ منھم و فضلوا علیہ اخاۃ الحسین الذی یمیلوا علی القتال و خرج علی یزيدبن معاویۃ ثم استشھد فی عام 61ھ

(2)ان علی بن الحسین زين العابدین کانت امۃ فارسیۃ اسمھا شھربانو بنت یزد حرد

اخر ملوک الفارس الساسانیین وکانت ام ولد ، وقد بات واضحا تعظیم الشیعہ ۔۔۔۔الفارسی ونقلت الامام بن الحسین ابی زین العابدین لان امہ کانت فارسیۃ ۔

واستدلت الشیعہ بقولہ تعالی وَأُوْلُواْ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ          فکان ولدہ اولی من ولد اخیہ و حکمت ھذہ الایۃ بالامام فیھم الی یوم القیامۃ ۔ وکذا استدل ایضا بقولہ تعالی  وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً م بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ  ای جعل الامامۃ فی عقب الحسین ۔

شیعہ کے بنیادی اصول

شیعہ کے درج ذيل اصول ہیں ۔

(1)امامت  :- وہ امتیازی اصول ہے جو شیعہ فرقہ اور دیگر اسلامی فرقوں کے درمیان حدّفاصل ہے ، ایک شیعہ عالم محمد حسین امامت کی تعریف کے سلسلے میں یوں لکھتا ہے ، "امامت وہ منصب الہی ہے جو نبوت کی طرح پروردگار عالم کی جانب سے امام کو خلقت کی ھدایت کیلۓ عطاء ہوتاہے ۔"

(2)امام معصوم عن لاخطاء ہوتا ہے۔

(3)امام کی معرفت جزء ایمان ہے۔

(4)امامت کے حقدار صرف علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد ہیں ۔

(5)امام کا انتخاب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

(6)تقیہ کرنا جزءدین ہے، کلینی نے ابو جعفر الصادق کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ التقیۃ من دینی و دین ابائی ولا ایمان لمن لا تقیۃ لہ ۔

(7)موجودہ قرآن ناقص ہے اور مکمل قرآن امام کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔

ماخوذ   من (مذاھب عالم کا تقابلی مطالعہ)

 

 

 

بعض معتقدات الشیعہ

موقف الروافض فی القران :-بعض غالی شیعہ کا یہ اعلان ہے کہ قرآن کے اندر زبردست تحریف اور نقص پایا جاتاہے  اور یہ قول ان کے بڑے بڑے علماء کا ہے جیسے شیعی علماء قمی ، کلینی ، ابوالقاسم ، طبرسی ، مجلسی ، المفید ، اردبیلی ، کشی اور الجزا‏ئری وغیرہ مشہور علماء شیعہ و ائمہ انہوں نے بڑی وضاحت سے قرآن کی ان آیات میں جس میں علی بن ابی طالب کا ذکر رہا ہے اور ایسی آیات جس میں مھاجرین و انصار کی مذمت اور قریش کے مثالب پر مشتمل جو آیتین رہی ہے اس میں تحریف اور نقص پایا جاتا ہے ۔

اسی طرح یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ قرآن کو اس انداز میں جس طرح کہ اس کا نزول ہوا علی بن ابی طالب کے علاوہ کسی نے جمع نہیں کیا ۔اور قرآن کامل علی بن ابی طالب کے پاس رہا ہے اور ان کے بعد ائمہ میں وراثۃ منتقل ہوتارہا ہے اور اس وقت وہ مھدیۂ منتظر کے پاس ہے ۔(مسئلۃ التقریب       ج/1      ص/178)

وہ اس بات کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مصحف فاطمہ نامی ایک مصحف مفقود ہے ، ان کے ہاتھوں میں کسی نہ کسی دن پہنچے گا اور مصحف فاطمہ ایک ایسا مصحف ہے جس کا نزول فاطمہ الزھراء پر فرشتہ کے واسطہ سے ہوا اور علی نے اسے فرشتہ کی زبان سے سن کر رقم کیا اور اسے فاطمہ کے حوالے کردیا یا بیک وقت پورا مصحف تین فرشتوں کے واسطے سے نازل ہوا اور اس مصحف کا نزول رسولوصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا جیسا کہ شیعہ کی کتابوں میں دعوی کیا گیا ہے۔(الکافی      للکلینی)

اور یہ مصحف فاطمہ مصحف عثمانی سے تین گنا بڑا ہے اور مصحف عثمانی سے بہت مختلف ہے یہی نہیں بلکہ مصحف عثمانی کا کوئی حرف اس مصحف میں نہیں ہے ، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ لوح فاطمہ مصحف کے علاوہ ایک صحیفہ ہے جس کا نزول رسولe پر ہوا اور آپ نے اسے فاطمہ کو ھدیہ کر دیا اور چھپانے کا حکم دیا گویا کہ وہ ان کے اسرار میں سے ایک سر رہا ہے ۔

تحریف قرآن کے نمونے بھی شیعہ کاتبین نے اپنی تحریروں میں ذکر کیاہے جیسا کہ طبرسی کی کتاب "فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب " میں اور اسی طرح شیعہ کی معتبر کتاب میں موجود ہے ۔ جن میں سے چند نوازش حسب ذیل ہیں ۔

(1)چنانچہ شیعہ کا دعوی ہے کہ قرآن کی ایک سورت جو سورت الولایۃ کے نام سے موسوم ہے مصحف عثمانی سے اس کو ساقط اور حذف ہے کردیا گیا ہے ۔ کلینی نے اپنی کتاب الکافی کے اندر سیکڑوں آیات کا تذکرہ کیا ہے جس کے بارے میں اس کا دعوی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے ایسے ہی نازل فرمایا ہے ، کچھ کلینی نے ابو عبداللہ کے جوالے سے ذکر کیا ہے ،  یقول اللہ تعالی ؛من یطع اللہ و رسولہ فی ولایۃ علی و ولایۃ الائمۃ من بعدہ ،فقد فاز فوزا عظیما ۔

و قولہ تعالی ؛ ولقد عھدنا الی آدم من قبل کلمات،فی محمد و علی و فاطمۃ و الحسن والحسین الائمۃ علیہ السلام ،من ذرّیتھم فنسی ۔ھکذا انزلت علی محمد۔

نزل جبریل بھذہ الايۃ علی محمد ھکذا ؛ و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا ۔ فی علیّ  ، فاتو بسورۃ من مثلہ ۔

قرا رجل عند ابی عبداللہ جعفر الصادق (قل اعملو فسیر اللہ عملکم ورسولہ والمؤمنون )قالت لیس ھکذا ؛ فھی انما ھی المامونون ، فنحن المامونون ۔

(مزید معلومات کیلۓ مسئلۃ التقریب بین اھل السنۃ والشیعۃ  ۔    د/ناصر عبداللہ الکفاری ۔

شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم  ۔         محمد یوسف لدھیانوی ؛ (الشیعہ والقران  ۔           احسان الہی ظہیر )

موقف الروافض عن الصحابۃ  :- روافض کے یہاں صحابہ کے بارے میں بغض و عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، یہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں ان میں سے جو سب سے بہترین لوگ ہیں ان پر ارتداد کا حکم لگاتے ہیں اور خلفاۓ ثلاثہ پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے خلافت کے منصب اور حق کو علی t سے غصب کر لیا ۔ اسی بنا پر شیعہ خلفاۓ ثلاثہ کو مرتد اور کافر قرار دیتے ہیں بلکہ صحابہ اکرام ]  پر سب وشتم کرنا اور لعن طعن کرنا تقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کا حقد اور کینہ اور نفرت اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ عشرۂ مبشرہ بالجنۃ کے لفظ عشرہ کو مکروہ کہتے ہیں ، قرآن کریم میں جنت اور طاغوت کا جو لفظ آیا ہے اس سے ابوبکر و عمر w کو مراد لیتے ہیں اور انہیں ۔۔۔۔قریش سے بھی موسوم کرتے ہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ r اور حفصہ r کے دین اور ان کی عقت و عزت پر تہمت لگا تے ہیں اور ناروا بے غیرتی کے کلمات بھی استعمال کرتے ہیں ۔(اللہ تعالی ان کے شر سے امت محمدیہ کو محفوظ رکھے   آمین)

شیعہ روافض کی یہ جماعت عمر فاروقt کی شہادت کے دن جشن مناتی ہے اور ان کے قاتل ابولؤلؤ مجوسی کو بابا شجاع الدین کے نام سے یاد کرتی ہے ۔

مذکورہ بالا باتوں کی تائید اور توثیق کیلۓ شیعی علماء کی کتابیں ؛ احقاق الحق ، فروع الکافی  ، بحارالانوار  ، رسالۃ العقائد  للمجلسی اور رجال الکشی اور الکنی والالقاب   للقمی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔اسی طرح" شیعیت اپنے آئینہ میں "  عبداللہ محمد السلفی ۔ شیعی سنی اختلافات اور صراط مستقیم کے ذریعہ معلومات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔

موقف الروافض عن الامامۃ والخلافۃ   :-روافض کا یہ نظریہ ہے کہ خلافت و امامت اہل بیت کا حق ہے ، یعنی علی اور ان کی ذریت کا حق ہے ، نیز ان کا نقظۂ نظر یہ بھی ہے کہ امامت کی تنصیص و۔۔۔۔۔۔ نبیe سے اور ان کی احادیث سے ثابت ہے اور عقیدہ امامت و خلافت شیعہ کی اصل بنیاد اور اہم اساس ہے اور ان کے ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے ، ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے عطائی ہے ،امام کا انتخاب و اختیار اللہ اسی طرح کرتا ہے جس طرح انبیا ء و رسل کا انتخاب کرتا ہے، اور امام کاتعلق اللہ سے اسی طرح ہوتاہے جس طرح کہ انبیاء کا تعلق ہوتا ہے ، یہ بھی نقطۂ نظر ہے کہ امام پر ایمان لانا ایمان باللہ کا ایک جزو ہے ، نیز وہ اماموں کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ائمہ اکرام اپنی مشیت اور اختیار ہی سے مرتے ہیں ۔

ایک شیعی عالم اپنی کتاب  منھج الکرامۃ   میں یوں لکھتا ہے ،مسئلۃ الامام التی یحصل بسبب ادراکھا نیل درجۃ الکرامۃ وھی احد ارکان الایمان المستحق بسببہ والخلود فی الجنان والتخلص من غضب الرحمن ۔ فقد قال رسولe من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ ۔(منھاج السنۃ     ۔ ابن تیمیہ "       ج/1       ص/11)

زعم الروافض ف عصمۃ الائمۃ والاوصیۃ   :-

شیعہ روافض کا اپنے ائمہ کے بارے میں یہ عقیدہ  ہے کہ تمام کے تمام ائمہ اور اوصیا  معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں ، گناہ اور خطا خواہ صغائر ہوں یا کبائر نسیان اور عمدا کا صدور ان سے نہیں ہوتا ایسے خطا ، عصیان اور نسیان سے وہ پاک ہو تے ہیں ، یعنی ایام طفولت سے لیکر زندگی کے آخری لمحہ تک ان کی یہ صورت یا حالت ہوتی ہے ۔ اسی طرح عصمت ائمہ ان کے نزدیک امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے ، و ہ اپنے ائمہ اکرام کو انبیاء اکرام سے افضل قرار دیتے ہیں اور وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے ائمہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور جزء الہی ان میں حلول کر گيا ہے ۔وہ اپنے ائمہ کے سلسلے میں علم الجفر کا دعوی کرتے ہیں اور علم الجفر وہ قضاء و قدر کے امور کا اجمالی علم ہے ، ان زعم یہ بھی ہے کہ ان ائمہ میں سے ہر امام کو علم دین رسولe سے ودیعت کیا گيا ہے اور ان کا علم ، علم عطائی ہوتاہے ۔

ان کے اعتبار سے امام اور نبی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے سواۓ اس کے کہ انبیاء پر وحی کی جاتی ہے اور امام پر وحی نہیں کی جاتی اور رسولe نے اسرار شریعت کو انہیں ودیعت کردیا تاکہ وہ لوگوں کو ان کے زمانے کے تقاضے کے مطابق بیان کرتے رہیں ، چنانچہ بعض لوگوں نے یوں تحریر کیا ہے ۔ "الفرق بین الرسول و النبی ولامام ، ان الرسول ھو الذی ینزل علیہ جبرئیل فیراہ و یسمع کلمۃ ینزل علیہ الوحي وربما رای فی منامہ نحو روي ابراھیم ۔

والنبی ربما سمع الکلام وربما راء الشخص ولم یسمع  ۔ والامام ھوالذی یسمع الکلام ولا یری الشخص (اي ان الامام حسب ھذا لکلام یوحی الیہ ۔

موقف الروافض عن التقیہ او تدینھم بالتقیہ  :- التقیۃ ھی التظاھر بعکس الحقیقۃ و تبیح للشیعہ خداع غیرہ فبناءا علی ھذا ینکر الشیعی ظاھر ما یعتقدہ باطنا و یعتقد ظاھرا ما ینکرہ باطنا ۔ یقول بعض علمائھم التقیۃ کتمان الحق و ستر الاعتقاد فیہ و مکاتمۃ المخالفین ۔(اي اھل السنۃ )

بقول الخمینی ؛ التقیۃ معناھا ان یقول الانسان  مغایرا للواقع او یاتی بعمل مناقض لموازین الشریعۃ والمراد بموازین الشریعۃ دین الشیعۃ۔  (کشف الاسرار       للخمینی          ص/147)

و تظھر شیئا آخر ، او تقوم بعمل عبادي امام سائرالفرق وانت لا تعتقد بہ ثم تؤدیہ بالصورۃ التی تعتقد بہ فی بیتک ۔(الشیعۃ والتصفیۃ)

مذکورہ بالا تعریفات اور توضیحات سے یہ واضح ہوتاہے کہ تقیہ شیعہ کے نزدیک یہ ہےکہ آدمی اپنے باطن کے خلاف ظاہر کرے جس کا معنی نفاق ، کذب اور خدع کے ہیں نہ کہ وہ تقیہ جس کو اللہ رب العالمین نے مضطر اور مکروہ کیلۓ مباح قرار دیا۔

شیعہ کے نزدیک تقیہ کا بڑا مرتبہ اور مقام ہے اور تقیہ  کرنے والے کیلۓ اجر عظیم ہے جس کا شمار نہیں کیا جا سکتا ان کے دین کے اصول میں سے ایک اصل ہے جس سے خروج کی کوئی گنجائش نہیں ہے ان کے اپنے خیال میں تقیہ کر نے میں دین کی عزت ہے اور اس کے اظہار میں دین کی ذلت ہے چنانچہ اس اصل کے سلسلے میں شیعہ باحثین نے اپنی کتابوں میں بڑی بحثیں کی ہیں اس کے احکام بیان کیے ہیں اور غیر محصور ثواب کا تذکرہ کیا ہے جو شخص کو حاصل ہوتاہے ۔

بعض اقوال ہیں جو تقیہ کے مرتبہ کو واضح کرتے ہیں ۔

(1)التقیۃ اساس الدین من لا یقول بھا فلا دین لہ ۔       کلینی نے جعفر الصادق کے جوالے سے بتایا ہے کہ  "التقیۃ من دینی و دین ابائی و لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ  ”[    الکافی        ج/2  ]

(2)اعتقد ان التقیۃ عز الدین و نشرہ  ذللۂ                (  الکافی          ج/2      ص/176)

جعل الشیعۃ ترک التقیۃ مثل ترک الصلاۃ تماما ۔

(3)قال القمی   "التقیۃ واجبۃمن ترکھا کان بمنزلتہ من ترک الصلاۃ ۔

(4)حدد الشیعۃ لجواز ترک التقیۃ بخروج المھدی المنتظر ۔     (الشیعۃ والسنۃ           ص/157)

(5)حرفوا معنی الایات الی ما یوافق ھواھم و کذبوا علی اھل البیت ۔ قال القمی "وقد سئل الصادق علیہ السلام من قول اللہ عزوجل ان اکرکم عنداللہ اتقاکم ، قال اعلمکم بالتقیۃ    اي علی ھذا التفسیر     اکرم ھو اکذبکم علی الناس ۔(الشیعۃ والسنۃ         ص/157)

(6)زعم الشیعۃ ان المعیار الصحیح لمعرفۃ الشیعی من غیرہ ھو اعتقاد بالتقیۃ و ینسبون الی الائمۃ المعصومین ، ان علم ھم الذین قالوا ھذاالکلام ۔

فقد روو عن الحسین ابن علی انہ قال لو لا التقیۃ ما عرف ولینا من عدونا ۔

(7)ساوی الشیعۃ بین التقیۃ و بین الذنوب التی لا یغفرہ اللہ کا شرک فروو علی بن حسن انہ قال یغفراللہ للمؤمنین کل ذنب و یطھرہ منہ فی الدنیا والاخرۃ ما خلا ذنبین ترک التقیۃ وترک حقوق الاخوان ۔

مذکورہ بالا سطور میں شیعہ روافض کے موقف کا اجمالی تذکرہ کیا گيا ہے ، اور ایک وافض شیعہ جب اپنے موقف کی کمزوری کو محسوس کرتا ہےتو تقیہ کا سہارا لیتا ہے اور ایسی صورت میں اسے ایسا اجر ملتا ہے جس کا اندازہ شیعوں نے علی t سے مصافحہ کرنے کے مثل قرار دیا ہے ۔ یا اسی طرح کسی نبی کے پیچھے صلاۃ ادا کرنے کے برابر قرار دیا ہے، یہ اور اس طرح کے افتراعات شیعہ روافض نے اللہ اور اس کے رسولe کے بار ے میں کیے ہیں ۔(مختصر التحفہ الاثنی عشریہ )

شیعہ روافض نے اپنے اس تقیہ کے مبدا اور اساس کیلۓ نصوص قرآنی کا سہارا لیا ہے اور ان نصوص کو اپنے عقیدہ کے مطابق ایسے معنی بیان کیے ہیں جس سے اپنے موقف کی تائید کرتے ہیں چنانچہ ان نصوص میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1)قولہ تعالی ؛ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ

(2)ابراھیم u کا قول ؛  فقال انی سقیم

(3)قولہ تعالی ؛  الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان

(4)قولہ تعالی ؛  الا ان تتقوا منھم تقاۃ

جبکہ ابراھیم u کا انی سقیم کہنا آیت یہ حصہ فن بلاغت کے اصول میں سے ایک اصل (توریع) کے مثال کیلۓ پیش کی جاتی ہے ابراھیم u نے اہل کفر کو باطل کے بطلان اور ان کی عبادت کرنے پر ملامت کرنے اور انہیں دعوت فکر دینے کیلۓ ایسا جملہ استعمال کیا تھا ، ابراھیم u کا یہ قول کذب اور جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس ميں ایک شرعی مقصد کی تعریض پائی جاتی ہے جیسا کہ اہل علم نے ذکر کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر       ج/4       ص/13)

اسی طرح دوسری توجیہ یوں کی جاتی ہے کہ ابراھیم u اپنی قوم کو شرک اور بت پرستی میں دیکھ کر بڑے رنجیدہ اور ذھنی طور پر پریشان اور بیمار تھے ، اسی طرح قرآن کا جملہ و قلبہ مطمئن بالایمان کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہوں اور کفریہ بات کہنے کیلۓ مجبور کیا جا رہا ہو تو ایسے لوگوں کیلۓ گنجائش ہے کہ اس کا اعتقاد کیے بغیر اور اس پر عمل کیے بغیر اس کلمہ کو اپنی زبان سے کہہ ڈالے ۔

اسی طرح دوسری آیت ؛  الا ان تتقوا منھم تقاۃ میں اہل کفر سے اور ان کے شر سے بچاؤ کی خاطر یہ گنجائش دی گئی ہے جیسا کہ آیت کے سیاق سے واضح ہوتا ہے ۔

تقیہ کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر  :-

        اسلام تقیہ کی بلکل اجازت نہیں دیتا ، اللہ فرماتا ہے ،یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک   اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا    فاصدع بما تؤمر و اعرض عن الجاھلین ۔

اور فرمانے نبوی ہے ، بلغو عنی ولو ایۃ ۔ یہ جملہ نصوص حق کی توضیح اور اس کی دعوت و تبلیغ کی وضاحت اور کتمان حق کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے ۔(ملخص من کتاب   ، فرق معاصرہ تنتسب الی الاسلام          ص/392 تا 380)

 

شیعہ روافض کے کچھ دیگر عقائد :-

(1)عقیدہ البدا   :-بدا کا معنی خفا کے بعد کسی چیز کا ظاہر ہونا یا احداث کے وقوع کے ساتھ علم کا تجدد یا کسی ایسی چیز کا حدوث جو پہلے نہیں تھی ، گویا کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو کسی چیز کا علم اس کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس عمل یا اس فعل کے وقوع ہونے کے بعد اس کا علم ہو تا ہے ۔

گویا جہل کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے اور اللہ تعالی کے تئيں یہ نظریہ اور عقیدہ جہل اور کفر ہے ۔شیعہ کی اکثر کتابیں اس فکر اور عقیدہ کی تائید کرتی ہے اور اس کو لوازم ایمان میں سے اعتبار کرتی ہے۔ اسلام میں "عقیدۃالبدا علی اللہ" کا یہ فکرہ سب سے پہلے مختار ابن ابی عبید الثقفی الکذاب نے پیش کیااور سب سے پہلے اس کا دعوی یہودیوں نے کیا ۔ مختار بن ابی عبید الثقفی اس فکر کو اپنے کذب اور عیوب پر پردہ ڈالنے کیلۓ استعمال کرتا تھا کیونکہ اس کا زعم تھا کہ اس پر وحی آتی ہےاور جب اپنے متبعین کو کسی چیز کی وہ خبر دیتا اور اس کے قول کے مطابق وہ چیز واقع نہ ہوتی تو ان سے اس جملہ سے "قد بدا لربکم کذا و کذا " سے مخاطب ہوتا ۔ اور اس شخص نے بھی اپنے موقف کے لۓ قرآن کی آیت "یمح اللہ ما یشاء ویثبت و عندہ ام الکتاب " سے استدلال کرتا ہے اور اپنے زعائم اور دعوے کی غلطیوں پر پردہ ڈالتا رہتا ہے ۔جبکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کا علم ازلی ہے اور اللہ تعالی کے علم سے کوئی چیز پرے نہیں ہے ۔ "وان اللہ قد احاط بکل شيء علما "

شیعہ روافض کے عقیدہ میں ایک عقیدہ 'مہدیت اور رجعیت ' کا عقیدہ بھی ہے۔ البتہ اس شخصیت کے وجود ، وقت اختفا ، مکان اختفا اور ظہور کے سلسلے میں باہم اختلاف پایا جاتا ہے، اور ظہور مہدی کے سلسلے میں اور ان کی رجعت کے سلسلے میں ایسے عجیب اخبار اور خرافات پاۓ جاتے ہیں جسے صاحب عقل سلیم تسلیم نہیں کر سکتا اور ان واقعات کو وہی شخص قبول کرتا ہے جس کی عقل میں خلل پایا جاتا ہے۔شیعہ کے یہاں صرف ایک مہدی نہیں ہےبلکہ ہر فرقہ کے الگ الگ مہدی ہیں جن کے ظہور اور خروج کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ نبیe اور ائمہ قیامت قائم ہونے سے پہلے دنیا کی طرف رجعت فرمائیں گے اور پر اس شخص کو سزا دیں گے جنہوں نے اہل بیت کو اذیت پہنچائی اور یہ عدل مہدی کے ظہور اور رجوع کے وقت ہوگا ۔وہ یہ زعم بھی رکھتے ہیں کہ ابوبکر و عمر w کو ایک درخت پر مہدی کے زمانہ میں صولی پر چڑھا یا جاۓ گا ۔(نعوذ باللہ )

جبکہ یہ عقیدہ اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے اور مہدی u کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسی u کےنزول کے بعد مہدیu کا ظہور ہوگا اور اس وقت دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ ہوگا اور دنیا عدل وانصاف                  

سے منور ہوگی ۔

شیعہ کا رجعت کا یہ عقیدہ اور ان کی یہ فکر ہندوانہ فکر و نظر سے میل کھاتی ہےجو ان کے عقیدہ آواگون  کے عقیدہ سے مطابقت رکھتی ہے اور مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جب آدمی مرگیا تو مر نے کے بعد برزخ کی زندگی گزارتا ہے اور پھر قرب قیامت میں اللہ کے حکم سے اسرافیلu صور پھونکیں گے اور اس کے بعد لوگ محشر میں دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور پھر صور پھونکا جاۓ گا تو میدان محشر میں حساب و کتاب کے لۓ لوگ اکٹھا کیے جائیں گے۔

سنت اور اقوال ائمہ کی بابت شیعی نظریہ :-

شیعی اثنی عشریہ مشائخ کے نزدیک ان کے ائمہ کے اقوال درجہ ومقام اللہ تعالی اور اس کے رسول کے قول کے مثل اور مانند ہے جیسا کہ ان کا بیان ہے۔"ان حدیثا کل واحد من الا ئمۃ الظاھرین قول اللہ عزوجل ولا اختلاف فی اقوالھم کما لا اختلاف فی قول اللہ عزوجل ۔"  (شرح اصول الکافی             ج/2       ص/225)

بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ "یجوز من سمع حدیثا عنا بی عبداللہ u ان یرویہ عن ابیہ او عن احد اجدادہ u بل یجوز ان یقول قال اللہ تعالی بل ھذا ھو الاولی ۔(اصول الکافی          ج/1        ص/140)(عقائد الشیعہ اثنی عشریہ    ص/67)

 اور سنت سے مراد ان کے نزدیک سنت المعصومین (اي ائمتھم )

(الدستور الاسلامی لجمہوریۃ ایران          ص/120)

اور وہ کہتے ہیں کہ "لانھم ھم المنصوبون من اللہ تعالی علی لسان النبی لتبلیغ الاحکام الواقعیۃ فلا یحکمون الا عن الاحکام الواقعیۃ عنداللہ تعالی کما ھی۔" (اصول الفقہ فی المقارن     لمحمد رضاالمظفر      ج/3      ص/51)

ایک شیعہ عالم شہاب الدین نجفی کہتا ہے"ان النبی ضاقت علیہ الفرصۃ ولم یسعہ المجال لتعلیم احکام الدین ، وقد قدم الاشتغال بالحروب علی تمحیص ببیان تفاصیل الاحکام ، لا سیما عدم کفایۃ استعداد الناس فی زمنہ التلقی ما یحتاج الیہ طول قرون۔"(تعلیق شہاب الدین النجفی    علی احقاق و ازھاق الباطل     ج/2         ص/288)

شیعوں کا امام اکبر خمینی کہتاہے " و واضح بان النبی لو کان بلغ یامر الامام طبقا لما امرااللہ بہ و بذل المساعی فی ھذا الجمال لما نشرت فی بلدان الاسلامیہ کل ھذہ الاختلافات و المشاحنات والمعارک و لما ظھرت خلافات فی اصول الدین و فروعہ ۔(کشف الاسرار        للخمینی            ص/138)

ایک شیعی عالم ال کاشف الغطا اپنے شیعہ موقف کا اظہار کرتے ہوۓ کہتا ہے ۔"انھم لا یعتبرون من السنۃ ۔۔۔(الاحادیث النبویۃ ) الا ما صح لھم من طرق اہل البیت عن جدھم   (ما رواہ الصادق عن ابیہ الباقر عن ابیہ زین العابدین عن الحسین عن ابیہ امیرالمؤمنین عن رسول سلام علیھم جمیعا ۔ اما مایرویہ مثل ابی ھریرۃ و سمرہ بن جندب و مروان ابن الحکم و عمروبن العاص و نظائرھم فلیس لھم عندالا ئمۃ من الاعتبار مقدار بعوضۃ۔ (اصل الشیعہ و اصولھا      ص/83 تا 84   لال کاشف الغطا)

و من اصولھم ایضا انا کل شي لم یخرج من عندھم باطل ۔(اصول الکافی     ج/1     ص/30)

کیا موجودہ زمانہ کے شیعہ ماضی کے شیعہ ہی کی طرح ہے یا ان سے مختلف ہے؟

یہ سوال یوں کیا جاتاہے کہ بعض اہل علم یہ بیان کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے شیعہ کا کہنا یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت اور شیعہ کے درمیان کوئی اصولی فرق نہیں ہے بلکہ فروعی اختلاف ہے جیسے مسلمانوں کے دوسرے فرقے مالکی ،حنفی ،شافعی اور حنبلی ہیں اسی طرح ہم شیعہ بھی ایک فرقہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے سادہ لوح اور بھولے بھالے لوگ اور شیعی عقائد کے سلسلے میں صحیح معرفت نہ رکھنے والے لوگ ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قدیم شیعہ اور عصر حاضر کے افکار و نظریات اور خیالات یکساں ہیں اور انکے  یہ افکار اہل سنت والجماعت کے خیالات اور منھج سے ہم آہنگ نہیں ہے ، شیعہ کے دین کی اساس تقیہ اور کذب ہے ان کے اہم مصادر اور مراجع کفروبدعت اور خرافات سے بھرے ہوۓ ہیں ، قرآن کریم ، صحابہ کے تئیں ان کے خیالات فاسد ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ سے میل نہیں کھاتے بلکہ عصر حاضر کے شیعہ غلو اور مکر و فریب میں ماضی کے شیعہ سے مختلف ہیں جیسا کہ خمینی کے نقول و فرامین اس کی تائید کرتے ہیں ۔یہ شیعہ اہل سنت والجماعت کے زبردست مخالف معاند اور دوشمن ہے تاریخ اور حقائق و واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں گرچہ یہ بات باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اور معتمرات اور کانفرنسوں کے ذریعے یہ تشہیر کی جارہی ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تقارب پایا جاتاہے۔(فرق معاصرہ       للا واجی     ص/459  تا 421)

شیعہ پر حکم  :-

        اس سلسلے میں کچھ تفصیل کی ضرورت ہے ، کیونکہ سارے شیعہ کا معاملہ یکساں نہیں ہے چنانچہ ان میں سے کچھ غالی شیعہ ہیں جو ملت سے بلا شک وشبہ خارج ہیں جبکہ ان میں سے بعض مبتدع یعنی بدعتی ہیں اور وہ اپنی بدعت میں متفاوت ہیں لھذا ایسے لوگوں ملت سے خارج نہیں کیا جاۓ گا ان کو اہل بدعت اور اہل الضلال قرار دیا جاۓ گا ۔ ویسے عام شیعہ پر عام حکم لگا یا جا سکتاہے کہ وہ گمراہ اور فاسق ہے اور حق کے راستہ سے دور اور بھٹکے ہوۓ ہیں البتہ شیعہ کے بعض اعتقادات جس کا تذکرہ ان کے علماء نے اپنی کتابوں میں کیا ہے جس کے بعض تذکرے سابقہ صفحات میں گزر چکے ہیں ان اعتقادات کے پاۓ جانے کے بموجب بلاشبہ وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں گے مثال کے طور پر قرآن کریم کے عدم کامل اور اس کی بابت تحریف کاعقیدہ زیادتی و نقص کا عقیدہ اسی طرح اپنے ائمہ کے سلسلے میں غلو کرنا اور انبیاء سے افضل و برتر قرار دینا بعض صحابہ میں غلو سے کام لینا ان کی تکفیر کرنا ، امھات المؤمنین اور بلخصوص عائشہ صدیقہr کی عفت و عصمت پر تہمت لگا نا اور اللہ تعالی کے سلسلے میں بدا کا عقیدہ رکھنا اور اس جیسے فاسد اور باطل عقائد کا ہونا ۔

البتہ جو لوگ ایسے باطل افکار اور مبادی کے قائل نہیں ہے اور ان کے دوسرے اعتقادات ہیں تو انہیں دین سے خارج نہیں کیا جاۓگا ان پر حجت قائم کی جاۓ گی اور ان کے حق کے قبول کرنے اور اس کے انکار کرنے کے مطابق حکم لگا یا جاۓ گا ۔

شیعہ کے نزدیک معتبر کتب احادیث

شیعہ اپنی احادیث کے سلسلے میں جن کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ اصل چار کتابیں ہيں جس پر حدیث اور عمل کا دارومدار ہے اور وہ حسب ذیل ہے۔

(1)الکافی فی اصول والفرو‏ع                               محمد بن یعقوب الکلینی   کنیت ابو جعفر     الملقب بثقۃ الاسلام                وفات 326ھ

یہ کتاب کتب اربعہ اور اصول معتمدہ میں سب سے اجل اور اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کی اکثروبیشتر  روایات کا سلسلہ نبیe یا اوائل ائمہ تک نہیں پہنچتا کیونکہ انکے نزدیک حدیث وہ ہے جو ائمہ میں سے کسی ایک سے مروی ہو لہذا ان کے نزدیک ان ائمہ اور نبی کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ اس کتاب کی اکثر روایات جعفر الصاد‍ق کے حوالے سے مروی اور منقول ہے ۔ شیعہ کے نزدیک اس کتاب کا مرتبہ اور مقام وہی ہے جو مرتبہ اہل سنت کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے۔

(2)من لا یحضرہ الفقیہ                    محمد بن علی ابن حسین ابن موسی ابن بالویہ القمّی  المشھور  بالصادق                             وفات 381ھ

یہ کتاب شیعہ کے نزدیک فقہی مسائل کی ایک خاص کتاب ہےاور وہ ایک ایسی کتاب ہےجس کے اندر مؤلف نے سندوں کا ذکر نہیں کیا ، بعض شیعہ عالم نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ صاحب کتاب نے یہ انداز اختصار کے پیش نظر اور کثرت طرق کے سبب کتاب کے ضخیم ہو نے کے پیش نظر اسناد کا تذکرہ نہیں کیا۔

(3)تھذیب الاحکام                         محمد بن حسن ابو جعفر الطوسی  المعروف  للشیخ الطائفہ                        وفات 460ھ

اس کتاب کا تعلق بھی فقہی فروعات سے ہے۔

(4)استبصار فی ماختلف من الاختبار

یہ کتاب سابقہ کتاب کا اختصار ہے ۔ یہ کتاب تین جزو میں ہے ، دو جزو کا تعلق عبادات سے ہیں اور تیسرے جزو کا تعلق بقیہ فقہی ابواب سے ہے ۔ اس کتاب کے اندر 393 ابواب ہیں اور حدیثوں کی تعداد 5511ہے۔یہ چاروں کتابیں شیعہ حضرات کے یہاں  الاصول الاربعہ المعتمدہ کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں ۔شیعہ عامل فیض الکاشانی کا بیان ہے "ان مدار الاحکام الشرعیہ الیوم علی ھذہ الاصول الاربعہ وھی المشھود علیھا بالصحۃ من مؤلفھا۔

(5)الوافی                                محمد ابن شاہ مرتضی ابن شاہ محمد المدعو بمحسن                                      وفات 1091ھ

اس کتاب کے اندر مؤلف نے سابقہ چاروں کتابوں کو جمع کردیا ہے اور ان کی احادیث اور مشکل کلمات کی شرح کی ہے، اس کتاب میں احادیث کی مجموعی تعداد 50000ہے یہ کتاب 14جزو پر مشتمل ہے ، اور اصول و فروع کے احکام پر مشتمل ہے۔

(6)وسائل الشیعہ                                    محمد بن حسن بن علی بن محمد بن حسن الحر العاملی                               وفات    1104ھ

تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ

اس کتاب میں بھی مؤلف نے سابقہ چاروں کتابوں کو جمع کردیا ہے اور فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے ۔ اس کتاب میں حدیثوں کی تعداد 35850 ہے، اور یہ کتاب 20 سال کی مدت میں تالیف کی گئی۔

(7)بحارالانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطھار                    محمد الباقر ابن محمد نقی ابن مقصود علی  ملقب المجلسی              وفات 1111ھ

اس کتاب کے بارے میں مجلسی کا بیان ہے کہ "اجتمع سوی الکتب الاربعاء نحو ۔۔۔۔۔ولقد جمع فی بحار الانوار

(8)کتاب مستدرک الوسائل             مرزا حسین ابن مرزا تقی ابن مرزا علی محمد ابن تقی النوری الطبرسی             وفات  1320ھ

اس کتاب میں احادیث کی تعداد 23000 جس کو متفرق جگہوں سے اخذ کر کے جمع کیا ہے اور فقہی ابواب پر کتاب "وسائل الشیعہ "کے انداز پر جمع کیا ہے ۔

 

مراجع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ چند اور کتابیں جو شیعہ کے یہاں اہمیت کی حامل ہیں ۔

(1)الحکومۃ الاسلامیۃ                                                    روح اللہ الخمینی

(2)اعیان الشیعہ                                                     محسن الامین العاملی

(3)اصل شیعہ و اصولھا                                              محمد حسین الکاشف الغطا

(4)فصل الخطاب فی تحریف الکتاب رب الارباب                                       حسین نوری طبرسی

(5)احقاق الحق و ازھاق الباطل                                             نورالحسین المرعشی

(6)امل الامل                                                        محمد بن حسن الحر العاملی

 

شیعوں کی چند اہم کتابیں ۔

(1)الکافی  فی الاصول و الفروع                                                      محمد بن یعقوب  کلینی

(2)تھذیب الاحکام                                                                                                                  محمد بن حسن  الطوسی

(3)استبصار                                                                                                         محمد بن حسن الطوسی

(4)من لا یحضرہ الفقیہ                                                                    محمد بن علی بابویہ  القمی                    المعروف بلشیخ  الصدوق

(5)بحارالانوار                                                                                              محمد باقر المجلسی

(6)الحکومۃ الاسلامیۃ                                                                             روح اللہ الخمینی

(7)اعیان الشیعۃ                                                                                     محسن امین العاملی

(8)اصل الشیعۃ و اصولھا                                                                  محمد حسین ال کاشف الغطا

(9)احقاق الحق و ازھاق الباطل                                             نور الحسینی المرعشی

کتب مفیدۃ للمطالعۃ

(1)الشیعۃ بین الحقائق و الاوھام                                                محسن الامین

(2)الشیعۃ فی عقائدھم و احکامھم                                                  امیر محمد الکاظمی  

(3)السلۃ بین التصوف و التشیع                                                             مصطفی کامل الشیبی

   (4)عقائدالامامیۃ                                                                                          محمد رضا المظفر

(5)عقائد الاثنی عشریۃ                                                                            ابراھیم موسوی زنجانی

(6)و جاء دور المجوس                                                                             عبداللہ محمد الغریب

 

الفرقۃ الباطنیۃ

        بغدادی اپنی کتاب میں فرقۂ باطنیہ کی اسلام اور مسلمانوں سے عداوت کا تذکرہ کرتے ہوۓ اپنے کلام میں باختصار یوں ذکرتا ہے کہ "فرقۂ باطنیہ مذاھب میں سب سے خبیث مذھب رہا ہے اور اس فرقہ کے لوگ مخلوقات میں سب سے شریر رہے ہیں اور مسلمانوں کے سب سے بہترین دوشمن رہے ہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ " نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور اگر مسلمانوں سے مقابلہ میں عاجز رہے تو ان کے خلاف خاموشی کے ساتھ سری انداز میں سازشیں کیں اور ان کو شکست دینے کی پلاننگ کی چنانچہ جب یہ بحرین پر قابض ہوۓ اور ان کی حکومت بن گئی وہاں انہوں نے فساد مچایا اور جب یہ جماعت مکہ پر قابض ہوئی تو حج کے موقع پر انہوں نے حاجیوں کا قتل عام کیا اور خش و خاشاک کی طرح انہیں کاٹ ڈالا انکی لاشیں زم زم کے کنویں میں پھینک دیں کچھ لاشیں مسجد کے صحن میں پھینک دیں اور کچھ کو میدان میں یونہیں پھینک دیا ، حجر اسود کو خانۂ کعبہ سے اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گۓ ، مسلمانوں کے علماء و مشائخ ، امراء و افواج کی لاتعداد کو نیست و نابود کردیا ، ان کا قائد ابو طاھر یہ جملہ کہا کرتا تھا " انا اللہ و باللہ انا ، انا اخلق الخلق و افنیھم  انا۔"  یہ جماعت ہمیشہ سے مسلمانوں کے ہر دوشمن کے ساتھ رہی ہے صلیبی جنگوں کے ایام میں یہ لوگ نصرانیوں اور عیسائیوں کے سب سے بڑے مددگار رہے ہیں ، شام کے ساحلی علاقوں میں صلیبیوں کا غلبہ انہیں کی بدولت ہوا مسلم ممالک میں تاتاریوں کا دخول انہیں کی معاونت سے ہوا ، خلیفہ معتصم باللہ کا ایک وزیر جس کا نام نصیر الطوسی تھا ان کی نگاہ میں بڑا ہی محترم تھا اور خلیفہ بھی اس کے تئیں دھوکےکا شکار تھا ۔ تاتاریوں کو بغداد آمد کی دعوت نصیر الطوسی نے دی، خلیفہ کے قتل اور دسیوں ہزار مسلمانوں کے قتل پر طوسی نے اکسایا ، بغداد کی درودیوار اسی کی بدولت منہدم ہوئیں اور اسی موقع پر مسلمانوں کی بیش بہا کتابوں کو دریاۓ دجلہ میں غرق کردیا تھا، بیان کیا جاتاہے کہ دجلہ کا پانی اس کے سبب متغیر ہو گيا تھا ، اہل علم لکھتے ہیں کہ ان باطنیوں کے نزدیک سب سے بڑی عید کاوہ دن ہوتارہا ہے جس میں مسلمانوں کو کرب و بلا کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے ،اسی طرح انکے نزدیک سب سے برا دن وہ دن ہوتارہا ہے جس دن اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تاتاریوں اور صلیبیوں اور عبیدیوں پر غلبہ عطا فرماتارہاہے۔

ان کی عداوت و خطرناکی کے سلسلے میں بغدادی کی کتاب   الفرق بین الفرق اور ابن کثیر " کی کتاب  البدایۃ والنھایۃ  اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ " کی کتاب مجموع الفتاوی   کا مطالعہ مفیدتر ہو۔

مسلمانوں کے تئیں انکی عداوت ماضی میں رہی ہے اور آج بھی برقرار ہے لیکن یہ لوگ اپنا کام نہایت ہی ہوشیاری اور رازداری سے کرتے ہیں یہاں تک کہ بیشتر اسلامی ممالک پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور عصر حاضر میں اسلامی ممالک کی موجودہ تباہیاں ماضی کے ادوار کی عکاسی کرتی ہیں ۔اسی جماعت نے شام ، اردن اور لبنان کے مختلف علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اسی جماعت کے سبب ہوا اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بہت سے لوگ ان باطنیوں کے دھوکے میں ہے اور ان کی کارستانیوں کو بھلا کر انہیں مسلمان سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنے اموال سے ان کی مدد کرتے ہیں ۔

باطنیت کا ظہور :-

        اس فرقہ کے ظہور کے سلسلے میں اہل علم کی رائيں مختلف ہیں بعض اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ اس کا ظہور 205ھ  میں ہوا جبکہ بعض نے 250ھ اور بعض نے 200کے بعد کا تذکرہ کیا ہے۔ اصحاب التواریخ لکھتے ہیں کہ باطنی دعوت کا ظہور مامون رشید کے زمانے میں ہوا اور اس کا انتشار (نشوونما) معتصم باللہ کے زمانے میں ہوا ، بعض لوگوں نے باطنیوں کی نسبت حرّان کے صابیوں کی طرف کی ہے۔ بغدادی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ باطنی فرقہ کا شمار دہریوں میں سے ہوتا ہے۔

باطنیت کی نشوونما کے سلسلے میں علماء کے اختلاف کا سبب   :-

اس کے چند عوامل ہیں (1)باطنیت کا معاملہ اس کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں غامض اور پیچیدہ رہا ہے چنانچہ ہر مؤرخ نے اس جماعت کے سلسلے میں جو اسے موصول ہوئی قلم بند کر دیا ۔(2)باطنی مذہب ایک ایسا مذہب رہا ہے جس کا چہرہ زمان و مکان کے حساب سے بدلتا رہا ہے۔

باطنی مذھب کی تاسیس کا مقصد  :-

        اس مذھب کے قیام کا اصل مقصد اسلام اور اہل اسلام سے انتقام لینا اور اسے نیست و نابود کرنا ہے ، یا تو مسلمانوں کو بلکلیہ ان کے دین سے خارج کرکے یا ان کے دلوں میں دین اسلام کے تئیں شکوک و شبہات داخل کرکے انہیں دین سے نکال باہر کردیا جاۓ اس بات کی تائيد امام غزالی" کی تحریر کردہ ایک عبادت سے ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ "مجوسیوں کی اولاد اور ملحدین ، فلاسفۂ متقدمین اور دیلمی کی بعض اضافہ کے تحت یہودیوں کی ان تمام لوگوں کی جماعت کا ایک اجتماع ہو اور اسلام کے تئیں حیلہ اختیار کرنے کے سلسلےمیں مشورہ ہوا چنانچہ انکے درمیان یہ بات ہوئی " ان محمد اغلب علینا و ابطل دیننا علینا و اتفق لھم من الاعوان مالم نقدر علی مقابلتھم ولا مطمع لنا فی نزع ما فی ایدی المسلمین من المملکۃ بالسیف والحرب لقوۃشوکتھم و کثرۃ جنودھم و کذالک لا مطمع لنا فیھم من قبیل المناظرۃ لما فیھم من العلماء والفضلاء والمتکلمین والمحققین فلم یبقی الا الجوع الی الحیل والدسائس۔

(بیان مذھب الباطنیۃ و بطلانہ                  ص/19)

باطنیت نے اپنے مقصد کی تحقیق اور تکمیل کے لۓ مختلف قسم کے حیلے اپناۓ جن میں سے چند کو ذيل کے نکات میں بیان کیا جا سکتاہے ۔

(1)اسلام کا اظہار کرنا اور آل بیت سے محبت اور ان کے تئیں انصاف کا اظہار کرنا –

(2)یہ دعوی کرنا اور بیان کرناکہ نصوص شریعت کا ایک اظہار ہے اور ایک باطن ہے اور ظاہر کی حیثيت چھلکے کی مانند ہے اور باطن کی حیثیت مغز جیسی ہے اور عقلمند اور دانشمند آدمی کو مغز سے مطلب ہے اس کو اپناتا ہے اور چھلکے کو ترک کردیتا ہے ۔

(3)انہوں نے رافضی مذھب اور شیعیت کی راہ کو آڑ بنا کر مسلمانوں میں گھسنے کی کوشش کی ، باوجود اس کے کہ یہ باطنی حضرات روافض کو گمراہ سمجھتے ہیں تاہم اس کا خیال یہ بھی ہے جیسا کہ امام غزالی نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ روافض کو کم عقل اور کمزور عقل والا سمجھتے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ طبیعت کے اتنے نرم ہے کہ محال چیز کو جلد قبول کر لیتے ہیں اسی طرح جھوٹی روایات اور غلط باتوں کی تصدیق اور ضعیف و موضوع روایات کو دوسرے لوگوں کے مقابل جلد قبول کر لیتے ہيں چنانچہ یہ باطنی لوگ لوگوں تک آسانی سے پہنچنے کے لۓ اس جماعت یعنی روافض کی طرف منسوب کرتے ہیں چںانچہ ان کا اظہار رفض ہے اور ان کا باطن کفر محذ ہے۔ (فضائح الباطنیۃ        ص/19)

اسی طرح بعض اہل علم کے قول کے مطابق "شیعہ امامیہ ، باطنیت کی دہلیز ہے۔" اس جملہ سے باطنیت اور رافضیت کے درمیان زبردست تقارب کا اندازہ کیا جاسکتاہے ۔

(4)باطنیت کا اتفاق ہےکہ وہ اپنے دعاۃ کو لوگوں کے درمیان بھیجے اور انہیں اس بات کا پابند بناۓ کہ وہ حیلہ و مکر کہ مبنی خطہ تیار کرے اور وہ یہ کہ ہر داعی پر ضروری ہے کہ وہ مدعو اور مخاطب کی خواہش کے مطابق عمل کرے خواہ وہ اس کا مذھب اور دین کچھ بھی ہو ، چںانچہ انہوں نے دعوت کیلۓ حیلے احتیار کیۓ جس کو اہل علم نے اپنی کتابوں کے اندر درج کیا ہے ، جن میں سے چند کا تذکرہ درج ذيل ہیں ۔

 

اہل علم نے ان کے 9 خیلوں کا تذکرہ کیا ہے ۔

<!--[if !supportLists]-->(1)                 <!--[endif]-->الزرق و التفرس :- اس کا مفہوم یہ ہے کہ باطنی  ، مدعو یا مخاطب کے حالات کا بغور مطالعہ کرے اور ہر چیز میں اس کی مخالفت کیے بغیر دھیرے دھیرے اپنی دعوت کی قبولیت کی راہ ہموار کرے۔

<!--[if !supportLists]-->(2)                 <!--[endif]-->التانیس :- یعنی مدعو کے دل تک پہنچنا اپنی شیریں بیانی اور لطیف گفتگو کے ذریعہ اور اس کے مزاج کے مطابق آیات ، احادیث ، اشعار اور  وہ تمام چیزیں پیش کرے جو اس کے اور مخاطب کے درمیان انسیت اور تقرب میں اضافہ کرنے والی ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(3)                 <!--[endif]-->التشکیک :- یعنی مخاطب سے ایسے سوالات کرنا کہ مخاطب اپنی جہالت کی بنا پر اس کے جواب سے عاجز ہو ، اور باطنیت کی دعوت عموما عوام الناس کے ساتھ ہی مرکوز ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر تشابہ قرآن کے بارے میں سوال کرنا ، حائضہ عورت سے روزہ کی قضاء اور صلاۃ کی عدم قضاء سے متعلق سوالات جبکہ دونوں عمل یکساں طور پر فرض ہے، اسی طرح جنت کے دروازے آٹھ اور جہنم کے دروازے سات ہی کیوں ہے ؟وغیرہ سوالات ۔

<!--[if !supportLists]-->(4)                 <!--[endif]-->التعلیق :-یعنی عوام الناس کے سامنے سوال کرنے کے بعد جب ان سے جواب طلب کیا جاتا ہے تو یہ لوگ انہیں جواب دینے کا وعدہ تو کرتے ہیں لیکن اس جواب سے پہلے مخاطب سے عہد و پیمان لیتے ہیں کہ وہ اس بات کی خبر کسی اور کو نہیں دینگے اور جب مخاطب ان سے وعدہ کرتا ہے تو پھر اپنی بات کو ان سے وہ نقل کرتے ہیں ۔

<!--[if !supportLists]-->(5)                 <!--[endif]-->الربط   :-اس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ ان کے اسرار اور بھید کاعدم افشاء کا عہد و پیمان لینا اور اس کے ذریعے انہیں اپنی مٹھی میں کرنا اور یہ کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو وہ اللہ کی لعنت اس کے غضب اور مخلد فی النار کا مستحق ہوں گے اور اسی طرح کی قسمیں دلاکر وعید کے کلمات سنا کر مخاطب کو خوف میں مبتلا کردیتے ہیں ۔

<!--[if !supportLists]-->(6)                 <!--[endif]-->التدلیس  :- اس کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطب کے سامنے شریعت کی تعظیم کااظہار کرنا اور اوامر دین کی محا‌فظت اور طلب علم کی رغبت دلانا اور یہ کہ اس نے جس بات کا عہد و پیمان کیا ہے اس کا احترام کرنا واجب ہے درحقیقت وہ ان باتوں کا اظہار انہیں اپنا شکار بنانے کیلۓ کرتے ہیں جبکہ وہ خود کسی عہد و پیمان پر ایمان نہیں رکھتے نیز وہ امام معصوم اور مسطور سے حصول علم کو شرط قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ امام معصوم ہی نبی ناطق اور وصی کے علم تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے اور ان کے خیال کے مطابق یہ ائمہ اور اوصیا سب کے سب مسطور ہیں وہ اس طرح کی باتیں مخاطب کو دھوکہ دینے اور مغالطہ میں رکھنے کیلۓ کرتے ہیں ۔

<!--[if !supportLists]-->(7)                 <!--[endif]-->التاسیس :- وہ یہ کہ مخاطب کے سامنے ایک تمہید پیش کرتے ہیں کہ ہر چیز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے لۓ قرآن مجید کی آیت وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ  اور اس جیسی آیات سےاستدلال کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ ظاہر ایک رمزی چیز ہے اور باطن یہی مقصود ہے اور اس کے بعد مخاطب کے دل میں باطن کی معرفت کا خیال اور ظاہر نص سے اعراض کا وسوسہ پیدا کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال سے مخاطب ایک ایسے مرتبہ اور مقام کو پہنچ چکا ہوتاہے کہ وہ باطنی علم کو طلب کرسکتاہے ۔

<!--[if !supportLists]-->(8)                 <!--[endif]-->الخلع من الدین :- یعنی داعی مخاطب کو یہ باور کرانا چاھتا ہے کہ اسے باطن کاعلم ہو جاۓ تو اس سے ظاہر کا حکم ساقط ہو جا تا ہے اور انہوں نے اپنے موقف کیلۓ قرآن کی آیت ویضع عنھم اسرھم والاغلال التی کانت علیھم سے استدلال کرتے ہیں ۔ یعنی ان سے صلاۃ و صیام وغیرہ دیگر احکام اسلام پر مشتمل تکالیف ساقط ہو جاتی ہے جبکہ وہ ان نصوص کے بواطن کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں جن میں ان احکام کی بجا آوری کا حکم دیاگیا ہے ۔ یہ ساری باتیں ان غالی قسم کے صوفیوں کے خرافات کے مثل ہیں جو اس بات کا گمان رکھتے ہیں کہ جب وہ علم یقین کے مرحلہ کو  پہنچ جاتے ہیں تو ان سے یہ احکام ساقط ہو باتے ہیں ۔

<!--[if !supportLists]-->(9)                 <!--[endif]-->الانسلاخ من الدین او السلخ :- یہ وہ مرحلہ ہے جب مخاطب کو داعی اس مرحلہ میں پہنچا دیتے ہیں اور اسے یہ باور کراتے ہیں کہ اس کیلۓ تمام قیود ختم ہو گۓ اور وہ تمام چیزیں اس کے لۓ حلال ہوگئیں جو دوسروں پر ان کے مذھب میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے حرام ہیں اور یہ کہ شریعت کی تمام تکالیف اس سے زائل ہوگئيں اور اس پر کوئی چیز حرام نہیں ۔

یہ بات واضح ہونی چاھئے کہ یہ سارے حیلے جلد بازی میں نہیں کیے جاتے بلکہ وہ اپنے مخاطب کا دراسۃ کرتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ کے بعد اس پر اپنی فکر کو پختہ کرتے ہیں ۔

باطنیہ کے چند اہم عقائد :-

<!--[if !supportLists]-->(1)       <!--[endif]-->الحاد کی دعوت دینا اور اللہ سبحانہ و تعالی کا انکار

<!--[if !supportLists]-->(2)       <!--[endif]-->نبوت کا انکار اور ابطال شرائع کی دعوت دینا

<!--[if !supportLists]-->(3)       <!--[endif]-->بعث ، حساب اور جزاء (امور آخرت )کا انکار

<!--[if !supportLists]-->(4)       <!--[endif]-->ارکان اسلام اور نصوص کی تاویل کرنا اور یہ دعوی کرنا کہ اس کا ایک ظاہر ہے جس کا ادراک عوام کرسکتی ہے البتہ ان نصوص کا ایک باطن بھی ہے جس کا ادراک صرف ان کے ائمہ ہی کرسکتے ہیں عوام الناس اسکی  تہہ تک نہیں پہنچ سکتی ۔

فرقہ باطنیہ کے دیگر اسماء و القاب :-

        اس فرقہ کو مختلف ناموں اور مختلف القاب سے جانا جاتا ہے چونکہ یہ جماعت لوگوں کو دھوکہ میں رکھنے کیلۓ الگ الگ طریقے اپناتی ہے اس لیے الگ الگ زمانے میں اور الگ الگ خطوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ان میں سے بعض القاب کو اس جماعت کے لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض ناموں سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے مشہور ناموں میں سے چںد نام حسب ذیل ہیں ۔

(1)باطنیہ (2)اسماعیلیہ (3)سبعیہ (4)تعلیمیہ (5)اباحیہ (6)قرامطہ (7)ملاحدہ (8)مزدکیہ (9)بابکیہ(10)خرمیہ (11)محمرہ

        امام غزالی اور امام ابن الجوزی S اباحیہ ، ملاحدہ اور مزدکیہ کے علاوہ مذکورہ 8 القاب پر متفق ہیں اور ان فرقوں میں سے 2 فرقے اسماعیلیہ اور قرامطہ ان دونوں کے نزدیک زیادہ مشہور ہیں ۔ البتہ ان سے نکلنے والے فرقے جیسے نصیریہ اور دروز وغیرہ یا تو ان کی اصل کا ماخذ امامیہ عشریہ تھے یا یہ کہ فرق باطنیہ کے فروع اور فرقوں میں سے ان کا شمار ہوتاہے جیسے کہ دروز ، اسماعیلیہ کی ایک شاخ ہے اور نصیریہ کی اصل امامیہ ہے۔

باطنیہ:-باطنیہ کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اور ظاہر کا علم تمام لوگوں کو ہوتاہے لیکن باطن کا علم ان کے زعم کے مطابق ہرکس و ناکس کو نہیں ہوتا بلکہ صرف ائمہ معصومین کو ہوتا ہے قر‍آن میں اللہ کی جانب سے نازل کردہ آیات کی تاویل اور تفہیم صرف ائمہ ہی کرسکتے ہیں ۔ان کی اس فکر کی بنا پر ان کا نام باطنیہ پڑا ۔

اسماعیلیہ :-اسماعیل بن جعفر کی طرف نسبت کرتے ہوۓ انہیں اسماعیلیہ کہا جاتاہے اس جماعت کے لوگ اسماعیل ابن جعفر الصادق کی امامت کے قا‏ئل ہیں اسماعیلیہ کا شمار غالی شیعہ میں کیا جاتا ہے ، اس جماعت نے جیسا کہ بیان کیا جاتاہے کہ اپنے اہداف کی تکمیل اور اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے لۓ آل بیت سے تشیع اور محبت کا سہارا لیا یہ فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے ساتھ جعفر الصادق کی امامت کا قائل رہا ہے البتہ جعفر الصادق کی وفات کے بعد شیعہ ، امامیہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ، چنانچہ ایک جماعت نے جعفر الصادق کے بیٹے موسی الکاظم کے ساتھ امامت کے سلسلے کو جاری رکھا اور انہیں موسویہ کے نام سے یاد کیا گیا اور امامیہ اثنا عشریہ کا اطلاق ان پر کیا گیا ، اس جماعت کا آخری امام محمد بن حسن العسکری ہے جو امام غائب المنتظر کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

جبکہ دوسری جماعت نے جعفر الصادق کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل کی امامت کا معترف ہوئی اور سلسلۂ امامت کو ان کی اولاد میں جاری رکھا ، اس جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ امامت وراثت سے چلتی ہے درمیان میں کوئی دوسرا شخص امام نہیں بن سکتا ، انہوں نے اپنے موقف کی تائید کیلۓ قرآن کی آيت "و جعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ " سے استدلال کیا ہے اور رہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے اندر  "کلمۃ باقیۃ " سےمراد امامت ہے۔

اسماعیلیہ کے افراد مختلف اسلامی ممالک میں پھیلے ہوۓ ہیں ان کے افراد جنوبی افریقہ ، وسط افریقہ ، بلاد شام ، ہندوستان پاکستان میں بھی پاۓ جاتے ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں حکمرانی کا ایک دور رہا ہے مصر اور شام میں فاطمی حکمرانوں کا تعلق اسی جماعت سے رہا ہے نیز قرامطہ جنہوں نے مختلف اسلامی اقالیم پر قبضہ کر رکھا تھا ان کا تعلق بھی اسی اسماعیلیہ سے رہا ہے ۔

شیخ محمد ابو زہرہ اپنی کتاب  "تاریخ المذھب الاسلامیہ " میں لکھتے ہیں کہ "یہ اسماعیلی مذہب کی نشوونما عراق میں دوسرے شیعی مذاہب اور فکر کی طرح ہوئی اور دیگر فرقوں کی طرح اسے بھی پریشانیوں سے سامنہ کرنا پڑا ، اور اس جماعت کی فکر رکھنے والے لوگ اضطہاد کے سبب فارس اور خراسان جیسے اسلامی ممالک اور ہندوستان اور ترکستان کی طرف نقل مکانی کیلئے مجبور کر دیئے گئے وہاں جاکر ان کی فکر کے اندر قدیم فارس کے عقائد اور ہندی افکار کا اختلاط ہوا اور اس کی تاثیر کی بنا پر بہت سے لوگ ان سے منحرف ہوگئے اور ان میں سے بعض لوگوں کے افکار میں مختلف فکر کی آمیزش پیدا ہوگئی، چنانچہ ان لوگوں کا اتصال ہندوستان کے برہمنیوں سے ہوا بدھشتوں اور فلسفیوں سے ان کے روابط ہوۓ اور فارسیوں کے عقائد اور افکار جو روحانیت اور کواکب و نجوم وغیرہ سے جو تعلق رہے ہیں ان کے ذھن و دماغ میں بس گئے اور جس قدر یہ خرافات ان کے ذھن و دماغ کے اندر مضبوط ہوتارہا اسی قدر یہ اسلام سے دور ہوتے گئے ، اسی وجہ سے رازداری جس کو انہوں نے جمہوریت سے اپنی انقطاع کا ذریعہ بنایا ہے اور اہل سنت سے وہ مانوس نہیں ہوسکے اور جوں جوں خفاء ان کے اندر بڑھتا گیا ۔ عام مسلمانوں سے یہ دور ہوتے چلے گئے اور کتمان و خفا کی اس حد تک پہنچ گئے کہ یہ اپنی کتابیں اور رسائل رکھتے رہے لیکن یہ اس کے مؤلفین ناموں کا اعلان و اظہار نہیں کرتے چنانچہ رسائل اخوان الصفاء جو کہ علم و فلسفہ پر مشتمل ہے یہ انہیں کے لوگوں کی لکھی ہوئی کتاب ہے لیکن جن لوگوں نے ان کتابوں کی تالیف کی ان کا نام مجہول رکھا گیا ۔(خلاصہ من کتاب         تاریخ المذھب الاسلامیہ              ص/ 50  تا  51) 

(3) تعلیمہ :- یہ باطنیہ کی جماعت تعلیمیہ کے لقب سے بھی جانی جاتی ہے کیونکہ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم کا دارومدار عقل   پر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق فکر و نظر اور استدلال سے ہے اور یہ علم امام معصوم ہی سے حاصل کیا جا سکتاہے اس کے بغیر کسی سے بھی علم حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اپنے موقف کی وہ یوں وضاحت کرتے ہیں کہ حق کی معرفت یا تو راۓ سے ہوگی یا تعلیم سے را‌ۓ کے ذریعے حاصل ہونے والا علم درست نہیں ہوسکتا کیونکہ راۓ متعارض ہوتی ہےاور اہل عقل و فکر کا آپس میں کوئی اختلاف بھی ہوتا ہے لہذا ان دونوں طریقوں سے حاصل کیاگیا علم درست نہیں ہو سکتا لہذا اس سے ظاہر ہوا کہ تعلیم ہی کے ذریعے حق اور درست بات کی معرفت ہوسکتی ہے اور اس علم کا امام معصوم کے سوا کسی اور سے اخذ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ان کے سوا سے حاصل کۓ گۓ علم کی صحت اور اس کے وثوق کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔

(4) اباحت :- باطنیہ کو اباحت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس نام کا اطلاق اس جماعت پر ان کے افکار و اعتقاد اور افعال سے ماخوذ ہیں ، کیونکہ یہ جماعت محرم چیزوں کو حرام قرار نہیں دیتی اور شریعت کا حکم لازم نہیں مانتی اس کے نزدیک جوکچھ بھی ہو اس کے ہاتھوں میں ہے وہ سب کچھ حلال ہے اور جس چیز سے وہ اپنے آپ کو روک لیں وہ حرام ہیں ۔

(5) السبعیہ  :-باطنیہ کا ایک نام سبعیہ بھی ہےاس کانقطۂ نظر یہ ہے کہ امامت کےسات ادوار ہیں اور جب سات ائمہ کا دور ختم ہو جاتا ہے تو ان کے حساب سے قیامت قائم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ازسرنو دوسرا دور شروع ہوتاہے ، نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سبعیہ کا اطلاق ان پر ان کے عقائد کی بنا پر ہے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عالم سفلی کا نظام اور اس کی تدبیر سات کواکب کرتے ہیں اور وہ ہے  زحل، مشتری، عطارد ، مریخ ، زہرہ اور شمس و قمر ۔یہ عقیدہ نجوم پرست ملاحدہ سے ماخوذ ہے ۔

اسی طرح سات کا عدد ان کے نزدیک مقدس اور متبرک مانا جاتا ہے ، اس سے وہ نیک فال نکالتے ہیں اور بطور تائيد کہتے ہیں کہ آسمان سات ہیں اور زمین سات ہیں ہفتہ کے ایام سات ہیں اور بڑےبڑے سیارے سات ہیں انسان کے اہم اعضاء سات ہیں اور انسان کے دماغ کے سات سراخ ہیں اس طرح انہوں نے اس عدد کی تعریف و توصیف بیان کی ہے۔

(6)ملاحدہ  :- ان کوملاحدہ اس لۓ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اللہ کے وجود کی نفی کرتے ہیں اور ستاروں کی تاثیر کے قائل ہیں اور صفات باری تعالی کو صفات سلبیہ سے یاد کرتے ہیں جس کا انجام و نتیجہ اللہ کے وجود کا انکار ہی ہوتا ہے ۔

(7)مزدکیہ  :- یہ مزدکی نامی ایک شخص کی طرف نسبت کرتے ہوۓ مزدکیہ کہا جاتا ہے نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خرامیہ جماعت کا یہ سردار تھا ۔

(8)خرامیہ :- یہ عجمی لفظ ہے جس کا معنی خوشگوار اور لذیذ شئ کے ہے جس سے نفس کو راحت محسوس ہوتی ہے اور یہی چیز ۔۔۔۔۔۔اور وہ ہے ارتکاب شہوات کے ذریعے اور تکالیف شریعہ سے آزاد کر کے لوگوں پر تسلط حاصل کرنا یہ نام اسلام سے پہلے مزدکیہ پر بولا جا تا تھا ۔

(9)محمرہ :- باطنیہ کا ایک لقب یہ بھی ہے کیونکہ اس جماعت کے لوگوں نے بابا خرامی کے زمانے میں انہوں نے اپنے کپڑے کو سرخ رنگ کر کے اس کو شعار بنایا تھا ، نیز یہ بھی کہا جاتا ہےکہ وہ اپنے مخالفین کو حمیر کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔اسی طرح ان کے اخلاق اور طبیعت کے اندر حمیر سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے ، یہ مختلف نام اور القاب اور ان کے اندر ان اسباب کا اجتماعی معنی نہیں ہے ، گرچہ اکثر علماء نے پہلے قول ہی کو راجح قرار دیا ہے ۔

(10) بابکیہ :- بابی خرمی شخص کی طرف نسبت کرکے بابیہ کہا جاتا ہے، ذکر کیا جاتا ہے کہ معتصم باللہ کے زمانے میں آزربائیجان کے حکم سے اس شخص نے خروج کیا پھر معتصم باللہ نے اس پر لشکر کشی کی اور پھر اس کو قتل کردیا ، اس گروہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک سال میں ایک رات ہوتی ہے جس کو "لیلۃ الافاضۃ " تاویل کرتے ہیں ، وہ ایک مکان میں اکٹھا ہوتے ہیں مردوزن کا اجتماع ہوتا ہے ، روشنی بجھادی جاتی ہے اور مرد و زن کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط ہوتا ہے ، اس طرح یہ لوگ نوشیرواں کی نبوت کے قائل ہیں ، اور ان کا نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ نوشیرواں محمدe اور دیگر انبیاء اکرام o سے افضل ہے ۔(نعوذباللہ )

(11)قرامطہ :- اس جماعت کا نام حمدان قرمط نامی کوفی کے ایک شخص کی طرف نسبت کرتےہوۓ کہا جاتا ہے ، وہ ایک بکری کا چرواہا تھا اور زہد و تصوف کی طرف اس کا میلان پا یا جاتا تھا ۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا صرف اظہار کرتا تھا دراصل وہ مجوسی تھا اس کی ملاقات باطنیت کے ایک داعی حسین اہوزی نامی شخص سے ہوئی اور ان دونوں کے درمیان حوار اور گفتگو شروع ہوئی جس کا انجام یہ ہوا کہ حمدان بعد میں چل کر باطنیت کا ایک ممبر اور رکن بن گیا اور پھر اس کے متبعین اور پیروکار ہوگۓ اور ایک فرقہ کی شکل اختیار کرگۓ اور یہی جماعت قرامطہ کے نام سے مشہور ہوئی ، امت اسلامیہ کی تاریخ میں اس نے بہت خطرناک کردار ادا کیا اور مسلمانوں کی تباہی کا سبب بنا۔

اسی طرح باطنیت کو میمونیہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ نام حمدان قرمط کے بھائی میمون قرمط کی طرف نسبت کرتے ہوۓ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح مصر میں عبیدیہ ، عبداللہ بن میمون القداح کی طرف نسبت کرتے ہوۓ کہا جاتا ہے ۔ عبیداللہ القداح ایک یہودی شخص تھا جو سلمیہ نامی ایک مقام میں رہتا تھا جو ملک شام میں رہا ہے ، پھر وہاں سے وہ مغرب گیا اور اپنے آپ کو شریف خاندان سے ہونے کا دعوی کیا چنانچہ بربر قوم کی ایک بڑی جماعت نے اس کا ساتھ دیا یہاں تک کہ اس کی حکومت قائم ہوگئی ۔ 322ھ میں عبیداللہ کی موت ہوگئی اور اس کے بعد المعیذباللہ نے مصر پر غلبہ حاصل کیا ، اس طرح عبیدیوں کی حکومت دوصدیوں تک قائم رہی یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی نے 564ھ میں ان کا خاتمہ کیا ۔ اس حکومت کو فاطمی دورحکومت کے نام سے اسلامی تاریخ میں جانا جاتا ہے اور یہی فاطمی دورحکومت مسلمانوں میں بدعات و خرافات کے رواج دینے کا زمانہ رہا ہے اور اس وقت سے جو بدعتیں رواج پاگئيں ہیں آج تک ختم ہونے کی بجاۓ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔

اسماعیلیہ کے چند عقائد :-بعض اہم عقائد کا تذکرہ باطنیہ کے ضمن میں آچکا ہے ۔

<!--[if !supportLists]-->(1)        <!--[endif]-->ان کے عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ محمدبن اسماعیل ابن جعفر اسلامی شریعت کے ناسخ ہیں۔

<!--[if !supportLists]-->(2)        <!--[endif]-->قرآن اور وحی یہ ایک فیضان ہے جس کا عقل کلی سے ہر اس شخص پر فیضان ہوتا ہے جس کے یہاں اس کے قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت پائی جاتی ہے ۔

<!--[if !supportLists]-->(3)        <!--[endif]-->ایک امامعصوم کے وجود کی ضرورت جو کہ محمد بن اسماعیل سے ہوا اور منصوص ہو اور یہ کہ سب سے بڑی اولاد ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(4)        <!--[endif]-->امام اسماعیلی دعوت کا محور ہوتا ہے اور اسماعیلی عقیدہ کا محور امام کی شخصیت ہوتی ہے اور وہ امام کو ایسی صفات سے متصف کرتے ہیں جو اللہ کی صفات کے مشابہ ہوتی ہیں اور علم باطن کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور اس امام کیلۓ اپنی کمائی کا پانچواں حصہ بھی خاص کرتے ہیں۔

<!--[if !supportLists]-->(5)        <!--[endif]-->یہ لوگ تناسخ ارواح کے بھی قائل ہیں ، امام ان کے نزدیک تمام انبیاء کا وارث ہے اور ساتوں امام کا بھی وارث ہوتا ہے۔ یہ لوگ تقیہ کے قائل ہیں اور اس کی تطبیق اس فترہ اور مرحلہ میں کرتے ہیں جبکہ ان پر احداث اور سختی اور دقت کے اوقات آتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے فاسد اعتقادات ہیں ۔(مزید تفصیل کیلئے "الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاھب المعاصرہ  "       ص/50  تا 51  کی طرف رجوع کریں ۔)

<!--[if !supportLists]-->(6)        <!--[endif]-->ان باطنی اسماعیلیوں نے اپنی کچھ کتابیں بھی نشر کی ہیں۔اپنے مذاھب کی ترویج واشاعت کی خاطر اور اپنے مذھب کے دفاع کی خاطر ، البتہ ان کی وہ کتابیں کیونکہ ان کے غلط افکار کی ترجمانی کرتی ہے لہذا ایسی کتابوں پر ان کے سوا کوئی دوسرا مطلع اور واقف نہيں ہوسکتا جیسا کہ بعض اسماعیلی باحثين اور کاتبین نے اپنی تحریروں میں اس کا اظہار کیا ہے چنانچہ ایک باطنی مؤلف مصطفی غالب اپنی کتاب "الحرکاۃ الباطنیۃ "میں یوں تحریر کرتا ہے ۔"ان لنا کتبا لا یقف علی قرا تھا غیرنا ولا یطلع علی حقائقھا سوانا ۔" (بحوالۂ الموجز فی الادیان المذاھب المعاصرۃ  ص/128)

اسی طرح اپنے مذھب کی تعلیم کیلئےعوام الناس کی بھی کچھ کتابیں ہیں جو بتدریج مرحلہ وار انہیں پڑھائی یا بتائی جاتی ہے اور اسے "البلاغۃ السبعۃ " کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

<!--[if !supportLists]-->(1)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ الاوّل    ؛ یہ عام لوگوں کے لئے ہے

<!--[if !supportLists]-->(2)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ الثانی    ؛ یہ کتاب ان لوگوں کے لئےہے جو ان سے اعلی درجہ کے ہیں ۔

<!--[if !supportLists]-->(3)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ الثالث  ؛ یہ ان لوگوں کے لئےہے جنہوں نے باطنی مذھب میں ایک سال گزارا ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(4)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ الرابع    ؛ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اس مذھب میں دوسال گزارا ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(5)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ الخامس  ؛ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اس مذھب میں تین سال گزارا ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(6)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ السادس  ؛ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اس مذھب میں چار سال گزارا ہو۔

<!--[if !supportLists]-->(7)        <!--[endif]-->کتاب البلاغ السابع   ؛ اس کتاب کے اندر باطنی مذھب کی حقیقت کا انکشاف کیا جاتا ہے۔

(ماخوذ من کتاب     الموجز فی الادیان المذھب المعاصرۃ          ص/ 129)

اسماعیلیہ الفاطمیہ :-یہ فرقہ مختلف ادوار سے گزرتا رہا ، پہلا دور جسے "دورالستر " سے جانا جاتا ہے ۔ یہ دور 145ھ یعنی اسماعیل بن جعفر کی موت سے لیکر کے عبیداللہ المہدی کے ظہور تک رہا ہے اس دور میں جو ائمہ رہے ہیں ان کی بابت ان میں کافی اختلاف رہا ہے چونکہ یہ سرّیت کا دور تھا اس لئے ان کے ائمہ کے نام بھی سر و خفا میں رہے اور ان کی بابت اختلاف رہا ۔

دوسرا دور "دور الظہور " رہا ہے ۔ اس کا آغاز عبیداللہ المہدی کے زمانے سے ہوا جو ملک شام یا دمشق کے ایک مقام سلمیہ نامی میں مقیم تھا ، پھر اس نے وہاں سے شمالی افریقہ کی طرف راہ فرار اختیار کی ۔ اسی شخص نے فاطمیہ کی بنیاد افریقہ (تیونس)میں 297ھ میں مہدیہ نامی ایک شہر میں اس کی داغ بیل ڈالی ۔ ذکر کیا جاتا ہے کہ عبیداللہ نے مہدیہ شہر کو بسایا اور اپنی حکومت کا صدر مقام بنایا ، تاریخ کی کتابوں میں اس حکومت کو دولۃ المہدیہ یہ مہدوی حکومت کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسے دول‍ۃ عبیدیہ یا عبیدی حکومت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے چونکہ عبیداللہ المہدی اس حکومت کا پہلا حکمراں رہا ہے۔ اس حکومت کے خلفاء اپنے آپ کو فاطمی کہلاتے ہیں اور اپنا انتساب علی بن ابی طالب اور فاطمہr کی طرف کرتے ہوۓ علوی اور فاطمی کہلاتے ہیں ، حالانکہ اس حکومت کے خلفاء کا فاطمہr سے کوئی تعلق نہيں رہا ہے بلکہ یہ لوگ اہل سنت والجماعت کے مخالف رہے ہیں اور ان کے دشمنوں اور مخالفین سے دوستی اور حمایت کرتے رہے ہیں ،اہل حق کے خلاف سازش کرنا اور ان کی حزیمت پر فرحت و انبساط کا اظہار کرنا ان کا شیوہ رہا ہے ۔اس فرقہ کی حکومت ملک شام ، شمالی افریقہ ،مصر ، حجاز اور یمن میں دو صدیوں تک قائم رہی ، اس کا پہلا حاکم جیسا کہ گزر چکا ابو محمدعبیداللہ المہدی رہا ہے ، جس نے 297ھ میں تیونس میں حکومت قائم کی اور پھر فاطمیوں میں اس کی قیادت رہی ، 341ھ میں المعذ لدین اللہ ابو تمیم معد اس کا قائد بنا اس کے عہد میں مصر فتح ہوا اور رمضان 362ھ میں اس کا پایۂ تخت مصر منتقل ہوا اور اس حکومت کا آخری خلیفہ العاضد لدین اللہ 1160 عیسوی سے 1171 عیسوی تک اسکی حکومت رہی۔

شیعی مصادر یہی کہتے ہیں کہ دولۃ فاطمی کا مؤسس عبیداللہ المہدی ہے اور فاطمیوں کی نسبت محمد بن اسماعیل بن جعفر الصادق اور محمدe کی نسل فاطمہ r سے جوڑتے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل دوسرے مصادر اس نسبت کا انکار کرتے ہیں اور عبیداللہ المہدی کی اصل کو فارسیوں اور یہودیوں سے جوڑتے ہیں ۔

فاطمیوں نے مہدیہ شہر کو افریقی ولایت میں 300 ھ میں قائم کیا اور اپنی نئی حکومت کا اسے دارالخلافہ قرار دیا اور 336ھ مطابق 948ء میں اپنی حکومت کو منصوریہ شہر کی طرف منتقل کردیا اور جب فاطمیوں نےمصر کو 358 ھ مطابق 969ء میں فتح کیا تو قاہرہ شہر کی بنیاد فسطاط نامی شہر کے شمال میں بنیاد ڈالی اور اسے اپنا دارالخلافہ بنایا اس طرح مصر روحانی ، تہذیبی اور سیاسی مرکز بن گیا ۔ یہ جماعت اپنے امام اور خلیفہ مستنصرباللہ (جس کی وفات 487ھ میں ہوئی ) کے انتقال کے بعد دوفرقوں میں تقسیم ہوگئی ، (1)اسماعیلیہ نزاریہ (شرقیہ )     (2)اسماعیلیہ مستعلیہ (غربیہ)

اہل علم اس انقسام کا سبب یوں بیان کرتے ہیں کہ مستنصرباللہ نے اپنے بعد امامت اور ولایت کی وصیت اپنے بیٹے نزار کے حق میں کی تھی کیونکہ وہ اس کا بڑا بیٹا تھا لیکن اس کے ایک وزیر افضل ابن بدرالجمال نامی شخص نے نزار کو حکومت سے علیحدہ کردیا اور مستنصرباللہ کے سب سے چھوٹے بیٹے مستعلی باللہ کی امامت کا اعلان کر دیا ، اور نزار کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا اور قید ہی میں اس پر ایک دیوار ڈھاکر کے مارڈالا اس طرح لوگ دونوں بیٹوں کی حمایت اور مخالفت میں دوٹولیوں میں تقسیم ہوگۓ اور یہ دونوں فرقے اپنے دونوں مذکورہ ناموں سے معروف و مشہور ہوۓ۔

اسماعیلیہ الحشاشون  :- یہ اسماعیلیہ کا ایک فرقہ ہے جو اسماعیلیہ نزاریہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ فرقہ ملک شام ، فارس اور بلاد شرق میں پایا جاتا رہا ہے ۔ مصر میں ایک شخص تھا جس کانام حسن ابن صباح تھا یہ ایک فارسی شخص تھا ، یہ مستنصرباللہ کے پاس اسوقت  آيا جب نزار کو حکومت سے محروم کر دیا گیا ، جب اس نے مستنصرباللہ کی حکومت کے اندر انقسام اور تفرقہ کا مشاہدہ کر لیا تو پھر بلاد فارس واپس چلا آیا اور اپنے آپ کو امام مستور ہونے کا دعوی کیا، اور 483ھ میں قلعہ آلموت پر قبضہ کرلیا اور اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی یا بلفظ دیگر اسماعیلیہ نزاریہ شرقیہ کی بنیاد ڈالی ۔حسن بن صباح کی یہی وہ جماعت ہے جو اسلامی تاریخ میں حشاشین کے نام سے جانی جاتی ہے ، کیونکہ یہ لوگ حشیش کا کثرت سے استعمال کرتے تھے ، اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالنے کے بعد اس شخص نے اپنے بعض جانبازوں کو مصر بھیجا اور مصر کے حکمراں عامر ابن مستعلی کے قتل کا منصوبہ بناکر کے اسے قتل کرا دیا ، اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ خون یا پیاسا شخص تھا حتی کہ اس نے اپنے دوبیٹوں کو بھی قتل کرادیا اور 518ھ میں اس کی موت ہوئی اور اس کی نسل ختم ہوگئی ۔ حسن بن صباح نے بلاد فارس میں نزار کی امامت کا دعوی کیا اور لوگوں کو اس کی دعوت یہ کہتے ہوۓ دی کہ "امامت نزار کی نسل میں منتقل ہوگئی اور نزار سرّی طور پر قلعہ آلموت میں حاضر ہوگۓ ہیں ، اور بچپن ہی میں مصر سے فارس کی طرف انہوں نے فرار اختیار کرلی ہے یا ایک دوسری بات بھی کہی جاتی ہے کہ نزار کی ایک لونڈی جو اس سے حاملہ تھی اس نے قلعہ آلموت کو جاۓ پناہ بنایا اس طور پر کہ اسی قلعہ میں وضع حمل کیا اس طرح اس جدید امام کا معاملہ مخفی اور سری انداز میں برقرار رہا ۔

حسن بن صباح کی موت کے بعد اس اسماعیلی حکومت پر بہت سے بادشاہ اور امراء کی حکومت رہی اور رکن الدین خورشاہ فارس کےاندر اس حکومت کا آخری بادشاہ رہا ہے ۔ ذکر کیا جاتا ہےکہ ہلاکوخان نے 1256ء میں حملہ کیا اور اس کا نشانہ یہ اسماعیلی قلعے رہے ہیں اور اس طرح وہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ رکن الدین خورشاہ نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور قلعہ آلموت کو 654ھ میں اس کے حوالے کردیا ، نیز یہ بھی ذکر کیا جاتاہے 40 قلعے ہموار کر دیے گئے اور ہلاکو نے خوشی خوشی اس کو قبول کر لیا اور 1258ء میں رکن الدین شاہ کو حیلہ سے قتل کر دیا گیا اور اس طرح فارس کے اندر حشا شیین کی سیاسی حکومت انتہاء کو پہنچ گئی ۔(ماخوذ ملخصا   الموسوعۃ المیسرۃ فی الادیان والمذاھب المعاصرۃ     ص/48  و  203تا 205)

ذکر کیا جاتا ہے کہ حشاشئین کی اسی جماعت نے صلاح الدین ایوبی جیسے باکمال اور بہادر قائد کو حیلہ سے قتل کیا تھا ۔ اور یہی جماعت ہے جو بعد کے زمانے میں چل کر کے آغاخانیہ کے نام سے جانی جاتی ہے جو اپنے زعیم اور لیڈر آغاخان کی طرف نسبت کرتے ہیں یہ فرقہ انیسویں صدی عیسوی کی پہلی تہائی میں اس نام سے ظہور پذیر ہوا جس کے بارے میں باتیں آئندہ صفحات میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

 

 

مزید دیکھیں

تازہ ترین سوالات