اسماعیلیہ بہرہ

کل ملاحظات : 227
زوم ان دور کرنا بعد میں پڑھیں پرنٹ کریں بانٹیں

بہرہ ، شیعہ اسماعیلیہ مستعلیہ میں سے ہے ۔ جو احمد المستعلی کی امامت کا قائل ہے اور اس کے بعد اس کے بیٹے عامر المستعلی اور اس کے بعد اس کے بیٹے طیب کی امامت کا قائل ہے اسی لئے اس جماعت کو طیبہ بھی کہا جاتا ہے۔


 بہرہ ، شیعہ اسماعیلیہ مستعلیہ میں سے ہے ۔ جو احمد المستعلی کی امامت کا قائل ہے اور اس کے بعد اس کے بیٹے عامر المستعلی اور اس کے بعد اس کے بیٹے طیب کی امامت کا قائل ہے اسی لۓ اس جماعت کو طیبہ بھی کہا جاتا ہے۔

بہرہ کا کلمہ یہ گجراتی لفظ  "وہورو" سے مشتق ہے جس کا معنی تجارت کے ہیں گویا بہرہ کا معنی تاجر کے ہیں ۔ اہل گجرات بیع و شراء کرنے والوں کیلۓ اس لفظ کا استعمال کیا کرتے تھے اور اسی معنی سے اسماعیلیہ سب سے پہلے تاجر تھے اور تاجر قوم کے اندر انہوں نے دعوت دی اور یہ نۓ مسلمان جو اسماعیلی مذھب میں داخل ہوۓ عربوں سے تجارت کی تو انہیں شروع میں بیوپاری کے نام سے موسوم کیا گیا اور پھر یہ لفظ مخفّف ہو کر کے کثرت استعمال کی بناء پر بہری ہوگيا۔

اس اسم کے مشتقات کے سلسلےمیں اور بھی باتیں ذکر کی گئیں ہیں جس کی تفصیل کیلۓ 

"البہرہ تاریخھاوعقائدھا      مؤلف رحمت اللہ قمرالہدی الاثری کی کتاب اور اسی طرح " دائرۃ المعارف الاسلامیہ " (اردو       مادّہ      بہرہ )  

بہرہ کی نشوونما :- عاضد باللہ کے زمانے میں مصر کی فاطمی حکومت پر صلاح الدین ایوبی کا غلبہ ہوا ، اس وقت اسماعیلیہ دو فرقوں نزاریہ اور مستعلیہ میں تقسیم ہوگیا ۔ یمن کے اندر اسماعیلیوں نے اسماعیلیہ طیبیہ کے نام سے اپنی جماعت بنائی جسے موجودہ زمانہ میں بہرہ جماعت کے نام سے جاناجاتا ہے ، اس جماعت کی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں رہی لیکن انہوں نے تجارت کے پیشہ کو اپنایا اور ہندوستان اور یمن کے درمیان انہوں نے تجارت شروع کی، اس درمیان ہندوستان کے اندر دعوت کی نشرواشاعت کا موقعہ باتھ آیا بالخصوص گجرات کے علاقے میں، ہندوؤں کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا اسی طرح ہندوستان میں ان کی تعداد بڑھ گئی اور وہ بہرہ کے نام سے معروف ہوۓ۔دسویں صدی ہجری میں اسماعیلیہ طیبیہ کی یہ جماعت دو فرقوں میں تقسیم ہوگئی اور اس قسم کا نتیجہ یا سبب یہ تھا کہ اس جماعت کے داعئی مطلق کے عہدے اور رتبہ کا ذمہ دار کون ہو۔ ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ اپنے داعی سلیمان بن حسن کی طرف نسبت کرتے ہوۓ سلیمانیہ کے نام سے معروف ہوئی اور دوسری جماعت ایک دوسرے داعی قطب شاہ داؤد کی طرف نسبت کرتے ہوۓ داؤدیہ کہلائی ۔ قطب شاہ داؤد کا شمار بہرہ کے 27 ویں داعی میں کیا جاتا ہے۔ اس شخص نے دسویں صدی ہجری میں اپنا مرکز یا دفتر یمن سے ہندوستان منتقل کیا ۔ان کا داعی طاہر سیف الدین جس کا شمار سلسلۂ دعاۃ اسماعیلیہ طیبیہ کے 51 میں ہوتا ہے اور وہ شہر ممبئی میں اقامت پذیر رہے ہيں ۔(سلسلۂ ماذا تعرف عن الاسلامیہ    لاحمد الحصین    ج/1 -ص/353)

اس جماعت کے تابعدار اور اتباع ہندوستان اور عدن {یمن} میں پاۓ جاتے ہیں ، بہروں کی تعداد ہندوستان کی ریاست گجرات ، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں رہتی ہے اور دنیا کے 31ممالک میں آباد ہیں اور ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ تعداد کراچی میں ہے، اسی طرح یمن شمالی میں ان کی تعداد بھی پائی جاتی ہے اور یام نامی قبیلہ ان کے آثار میں سے ہےاور باطنیت کے راستہ پر گامزن ہے ہندوستانی بہروں کا تعلق انہیں سے ہیں ۔(نشاۃ الفکرۃ الفلسفی      ج/4   ص/432)

بہرہ کی عصبیت اپنے مذھب اور اپنے عقیدے اور اپنے ان تقالید میں جس کو انہوں نے اپنے عقائدین اور زعماء سے وراثت میں پائی ہے اس پر شدت اور سختی میں کافی مشہور ہے ۔ چنانچہ یہ لوگ اس کی زبردست محافظت کرتے ہیں یہ لوگ ان تقالید اور اس کی تطویر میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کرتے ۔

ان کے چند مظاہر بھی ہیں ۔

(1) مرد اور عورت کی ایک خاص پوشاک ہوتی ہے جس کو دیکھ کر کے ایک آدمی بہروں کو دوسروں سے بخوبی پہچان سکتا ہے ۔

(2) ان کی عبادت کی خاص جگہیں ہیں ان کے سوا کوئی دوسرا وہاں داخل نہيں ہوسکتا اس کو جامع خانہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ اپنی نمازوں کو جامع خانہ ہی میں ادا کرتے ہیں اور عام مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھنے کو درست نہيں سمجھتے بلکہ انکار کرتے ہیں ۔(مشاہدہ ہے کہ یہ بہرے مسجد حرام میں اذان اور اقامت صلاۃ کے وقت وہاں سے نکل جاتے ہیں اور اپنے رباط جو رباط سیفی کے نام سے جانا جاتا ہے جو حرم مکی کے قریب جنوبی حہت میں واقع ہے اس میں ادا کرتے ہیں ۔)

(3) اپنے مذھب اور باطنی عقائد پر زبردست پردہ کرتے ہیں ، ظاہری طور پر بعض فرائض اور ارکان کی ادائيگی میں مسلمانوں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ باطنی عقیدہ رکھتے ہیں اور اہل سنت والجماعت سے دور ہوتے ہیں مثال کے طور پر وہ نماز ادا کرتے ہيں جس طرح کے مسلمان ادا کرتے ہیں اور نماز کے حدود اور ارکان کی محافظت کرتے ہیں مسلمانوں کی طرح لیکن وہ یہ کہتےہیں کہ ان کی یہ نماز اس امام مستور کیلۓ ہے جو طیب بن عامر کی نسل سے ہے وہ مسلمانوں کی طرح شعائر حج کو بھی ادا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کعبہ جس کے اردگرد وہ طواف کرتے ہیں یہ کعبہ ان کے امام کا رمز ہے ۔اس طرح وہ اپنے عقا‎ئد میں باطنی مذھب رکھتے ہیں ۔(دراسۃ عن الفرق         لاحمد حلوی         ص/229)

بہرہ کے عقائد و افکار :-  ان کے عقائد حسب ذیل رکھتے ہیں ۔

(1) بہرہ کی یہ جماعت اپنے ائمہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتی ہے ۔نماز تو وہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی نماز اسماعیلی امام طیب ابن عامر جو 525ھ میں ستر میں داخل ہوۓ (ان کے عقیدہ کے مطابق )کیلۓ ہوتی ہے اور ان کے مستور ائمہ طیب ابن عامر کی نسل سے عصر حاضر تک ہوتے آرہے ہیں ۔اور ہر زمانے میں ایک امام مستور ہوتا ہے۔اس فرقہ کے رہنماء داعیئ مطلق کہلاتے ہیں اور وہ امام کا باب یا نائب کی حیثیت سے جماعت کے تمام دینی و دنیوی امور پر کلی اختیار رکھتا ہے۔اس فرقہ کے 52ویں داعئی مطلق سیدنا درھان الدین ہے ۔

(2) وہ اپنی نمازوں کو اور عید کو ایک دن یا دو دن پہلے ادا کرتے ہیں اور اسی طرح ان کے حج بیت اللہ کا بھی معاملہ ہے ۔

(3) ربا اور سود کو انہوں نے لینا اور دینا اعلانیہ طور پر مباح کر رکھا ہے ۔

(4) کعبۃ اللہ کو امام کا رمز قرار دیتے ہیں ۔

(5) فاطمیوں سے متعلق مقابر اور مساجد کا احیاء کرنا ان کے دین میں شامل ہے چنانچہ وہ ایسے قبروں اور مساجد کی تشئید و تزئین کیلۓ زبردست مال خرچ کرتے ہیں ان کے اعمال میں سے یہ بات بھی ذکر کی جاتی ہے کہ کربلا کے مزار پر اور اسی طرح نجف اور مشہد حسین اور قاھرہ میں سیدہ زينب کے مزار کی اصلاح و مرمت کرنا ہے اسی طرح انہوں نے قاہرہ میں موجود ان کے زعم کے مطابق مقبرۂ حسین پر سونے کا قبّا بھی بنا رکھا ہے۔

(6) وہ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا امام طیب ابن عامر ایک غار میں غیبوبت (ستر)اختیار کرلی۔

(7) ان کے ائمہ کا سلسلہ امام علی بن ابی طالب سے ملتا ہے اور وہ تمام معصوم عن الخطاء ہیں۔

(8) قرآن کریم کا ظاہری طور پر احترام کرتے ہیں اور اس کی باطنی تفسیر کرتے ہیں ۔

(9) ان کی نمازوں میں ان کا قبلہ 51نمبر کے امام طاہر الدین جو ممبئی میں مدفون ہیں اس کی طرف ہوتی ہے اور اس پر "الروضۃ الطاھرۃ" کا اطلاق کرتے ہیں ۔

(10) ماہ محرم کے پہلے دس ایام میں صلاۃ ان پر واجب ہے اور اس کے علاوہ دیگر مہینوں میں واجب نہیں ہے ۔وہ اپنی نمازیں خاص مقام پر جسے جامع خانہ کہا جاتا ہے میں ہی ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص ماہ محرم کے ان دس دنوں میں جامع خانہ میں حاضری نہیں دیتا تو اسےجماعت سے نکال دیا جاتا ہے اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

(11) زکاۃ ، صیام اور حج کا مفہوم ان کے یہاں وہ نہیں ہے جس کو ہم اہل سنت جانتے اور سمجھتے ہیں۔

(12) بہرہ کے ہر فرد کیلۓ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے روضۃ الطاھرۃ پر حاضری دے اور چند بار اس کا طواف کرے اسی طرح جب وہ اپنے سفر سے واپس آۓ تو اپنے گھر پہنچنے سے اور اہل وعیال سے ملنے سے پہلے روضۃ الطاھرۃ کا طواف کرے۔

(13) بہروں میں ہندووانہ معاشرت اور سماجی رسوم کے اثرات موجود ہیں ۔یہ دیوالی بھی جوش و خروش سے مناتے ہیں اور اپنے حساب و کتاب کی شروعات اسی دن سے کرتے اور اپنے مذھبی قائد سیدنا سے تبرک حاصل کرتے ہیں اور نقد رقم بطور اسلامی پیش کرتے ہیں ۔ یہ اسلامی فرقوں کی طرح اسلامی مہینہ کا آغاز چاند دیکھ کر نہیں کرتے بلکہ ان کا یہ عمل فاطمی عہد میں بنے کلینڈر پر ہوتا ہے۔

(ماخوذ من کتاب ماذا تعرف عن الاسلامیہ  البہرہ     لاحمد عبدالعزیز الحصین     ج/5  ص/365)

کتب البہرہ :- بہرہ کی یہ جماعت اپنے عقیدہ کے امور کو انتہائی خفاء میں رکھتی ہے اور اپنے عقیدہ کو چھپاتی ہے اسی طرح وہ اپنی مؤلفات اور اپنی کتابوں کو بھی مخفی رکھتی ہے چنانچہ ان کی کتابوں میں سے شاذ و نادر ہی کی طباعت ہوتی ہے ۔بعض کاتبین سے ان کی چند رسائل یا کتابوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(1) کتاب النصیحۃ : اس کتاب کے 51ویں نمبر کے داعی اور امام طاھر سیف الدین کی کتاب ہے اس کتاب کو یہ جماعت اپنا قرآن سمجھتی ہے اور اپنے احکام و عبادات کا اسی سے اخراج کرتی ہے۔

(2) دعائم الاسلام :   یہ مخطوط کی شکل میں ہے ۔

(3) الحقائق : یہ بھی مخطوط ہے ، مطبوع میں نہیں ۔

(4) ضوءنورالحق المبین  :  طاھر سیف الدین یہ کتاب ہے اور انہوں نے اپنے متبعین کو اس کتاب کے پڑھنے کا مکلف بنایا ہے کہ اسے اپنی خاص و عام مجلسوں میں پڑھا جاۓ۔ [نوٹ]جن باحثین نے اس کتاب کا مشاہدہ کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کتاب کا تصفح (ورک گردانی) کرنے والا اس حقیقت کو پاۓ گا کہ اس مؤلف اپنے متبعین دا‎ؤدیہ کے سوا پوری امت توحید کی تکفیر کرتا ہے اور جو شخص اس کو داعی واجب الاتباع نہیں سمجھتا وہ اس کی توحید کو قبول نہیں کرتا یعنی وہ اس مسلم نہیں سمجھتا اور جو لوگ اپنے کو اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں ان کی کلمۂ شہادت اس کے نزدیک مقبول نہیں ہے یعنی وہ مسلمان نہیں ہے ۔

(5) صحیفۃ الصلاۃ 

(ماخوذ من کتاب         لاحمد عبدالعزیز الحصین    السابق    ج/1   ص/361) 

بہرہ جماعت پر ان کے امام سیدنا کا اثر و رسوخ :-

سیدنا کا اثر بہرہ جماعت پر زبردست ہوتا ہے حتی کہ کوئی کام ان کی اجازت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے امام نے بہروں پر کسی صحیفہ کا پڑھنا ، مطالعہ کرنا کسی جامعہ میں داخلہ لینا یا اس کی طرف ترشیح کرنا سیدنا کی اجازت کے بغیر ممنوع اور حرام ہے ۔چنانچہ ایک بہری شخص اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے۔ 

" ان اي فرد من افراد طائفتہ لا یملک ان یحي حیاتہ الخاصۃ بہ او ان یقراء مجلۃ او صحیفۃ او کتابا او ان یساھم فی اصدارھا الا باذن الداعی ولا یستطیع اي فرد ان یدرّس فی مدرسۃ او جامعۃ او یرسل ابنائہ الیھا الا باذن الخاصۃ من الداعی وکذا لا یستطیع اي فرد ان یمارس اي نو‏ع من انواع التجارۃ او الحاماۃ او الطب او الاعمال الحسابیۃ او غیرھا من الاعمال الا باذن من الداعی کذالک ۔ حتی ان افراد الطائفۃ لا یستطیعون دفن موتاھم الا تسریح منہ ۔

و یعتبر الداعی نفسہ انہ المالک المطلق لکل ممتکاۃ طائفتہ المادّیۃ و المعانویۃ ۔و کل افرادالطائفتہ یعتبر عبیدا للسید[سیدنا] عندالبلوغ من عمرہ رابعۃ عشرۃ ۔ ویعتقد الداعی الحالی کذالک انہ الممثل الروحی للالہ علی الارض اي ظل اللہ فی الارض۔

(ماخوذ من کتاب ماذاتعرف عن الاسماعیلیہ البھرہ       لاحمدعبدالعزيز الحصین   ج/1   ص/365)

کتب :- 

(1) مسلمانوں کی خفیہ اور باطنی تحریکیں       مرزا سعید دہلوی 

(2) The Bohra                               by     Asghar ali   engineer

(3) دنیاۓ اسلام کا خاموش شہزادہ پرنس کریم خان                      سیدعاصف جعفری

(4) The Ismaely and Islamisation in Pakistan         by      Borth wick

(5) Agha khan  meehar              ترجمہ      حمید اختر     


مزید دیکھیں

تازہ ترین سوالات