سرمایہ کاری سرٹیفکیٹ حرام ہونے کا فتوی دیا گیا تو کیا اسے ختم کروا دے ؟ نیز وصول کردہ منافع کا کیا کرے؟ سرمایہ کاری سرٹیفکیٹ حرام ہونے کا فتوی دیا گیا تو کیا اسے ختم کروا دے ؟ نیز وصول کردہ منافع کا کیا کرے؟
سرمایہ کاری سرٹیفکیٹ حرام ہونے کا فتوی دیا گیا تو کیا اسے ختم کروا دے ؟ نیز وصول کردہ منافع کا کیا کرے؟
اول:
اگر کوئی اسلامی بینک اپنی کچھ رقوم پرائز بانڈز، یا سود پر مبنی ٹریژری بلوں میں لگاتا ہے، یا پھر "منظم تورق" [بینک سے کوئی چیز قسطوں میں خرید کر بینک کو ہی یا کسی اور کو بینک کے ذریعے نقد لیکن کم قیمت میں فروخت کر کے رقم وصول کرنے کے حیلے] میں لگاتا ہے تو ایسے بینک میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سرمایہ کاری کے معاہدے میں بینک اصل میں کام کرتا ہے اور سرمایہ کاروں کا نمائندہ ہوتا ہے، اس طرح سرمایہ کاروں کو بھی بینک کی طرف سے کیے جانے والے غیر شرعی معاملات کا گناہ ہو گا، چنانچہ اس صورت میں محض حرام منافع سے خلاصی گناہ سے بچنے کے لیے ناکافی اقدام ہے۔
دوم:
سودی منافع جو کہ حرمت کے علم سے قبل آپ نے وصول کیا تھا آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں، چاہے آپ نے انہیں خرچ کر دیا ہے یا ابھی آپ کے پاس باقی ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: اللہ تعالی نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کہا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ سودی لین دین سے رک گیا تو سابقہ سودی مال اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں جس موقف پر مکمل شرح صدر ہے کہ جس شخص نے کوئی مال تاویل کرتے ہوئے ، یا لا علمی کی بنا پر اپنے قبضے میں کیا تو یہ بلا شک و شبہ وہ اسی کا ہی ہے، جیسے کہ اس بارے میں کتاب و سنت اور قیاس کے دلائل موجود ہیں۔" ختم شد
"تفسير آيات أشكلت على كثير من العلماء." (2/ 592)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ فلاں کام حرام ہے، تو اس حرام کام سے لا علمی کی بنا پر جو کچھ بھی اس نے کمایا وہ اسی کا ہے؛ کیونکہ اس نے یہ کام کسی عالم کے فتوے پر غلط اعتماد کرتے ہوئے کیا تھا، لہذا اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں کرے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ رک گیا تو ماضی میں حاصل کردہ مال اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275] "