خریدار ادائیگی نہ کر سکے تو بیع فسخ کرنا، اور کرائے کی چیز کرائے دار کو ہی فروخت کرنے کا حکم خریدار ادائیگی نہ کر سکے تو بیع فسخ کرنا، اور کرائے کی چیز کرائے دار کو ہی فروخت کرنے کا حکم خریدار ادائیگی نہ کر سکے تو بیع فسخ کرنا، اور کرائے کی چیز کرائے دار کو ہی فروخت کرنے کا حکم
خریدار ادائیگی نہ کر سکے تو بیع فسخ کرنا، اور کرائے کی چیز کرائے دار کو ہی فروخت کرنے کا حکم
جب فریقین کے درمیان بیع پکی ہو جائے ، اور مشتری سامان وصول کر لے تو فروخت کنندہ اس بیع کو کالعدم نہیں کر سکتا؛ کیونکہ بیع کرنے سے معاہدہ نافذ ہو گیا، اب اس معاہدے کو طرفین کی رضا مندی سے یا کسی قابل قبول عذر کی وجہ سے ہی کالعدم قرار دیا جائے گا۔
خریدار کا ادائیگی سے قاصر ہو جانا بیع کو کالعدم قرار دینے کے قابل عذر ہے، بشرطیکہ کہ بیع کے وقت بائع کو مشتری کی مالی تنگی کا علم نہ ہو، لیکن اگر بائع کو اس کا علم تھا پھر بھی اس نے فروخت کر دیا تو اب بیع فسخ کرنے کا اسے اختیار نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر بائع کو مشتری کے تنگ دست ہونے کا علم تھا تو اب بائع کے لیے بیع فسخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے؛ چنانچہ اگر کوئی آدمی کسی کو چیز اس لیے فروخت کرتا ہے کہ وہ اسے صاحب حیثیت سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ خریدار کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تو بائع اس صورت میں بیع فسخ کر سکتا ہے؛ کیونکہ مشتری کو اس صورت میں ڈھیل دینے پر بائع کو نقصان ہو گا۔
لیکن اگر بائع کسی ایسے شخص کو مال فروخت کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم تھا کہ اس کے پاس ادائیگی کے لیے سرمایہ نہیں ہے تو اب بائع کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے؛ کیونکہ بیع کے وقت مشتری کی مالی حالت کا اسے علم تھا۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (8/364)
اسی طرح جب بائع کو یہ علم ہو کہ خریدار تنگ دست تو نہیں ہے لیکن ویسے ہی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو اس صورت میں بھی بائع کے لیے بیع فسخ کرنا جائز ہے اور فروخت کردہ سامان واپس لے سکتا ہے۔
یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (32/136) میں ہے کہ:
"ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشتری ادائیگی کی طاقت رکھتا ہے لیکن بلا وجہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے تو بائع لڑائی جھگڑے کے نقصانات سے بچنے کے لیے بیع فسخ کر سکتا ہے۔ اور حنبلی فقہی کتاب: "الانصاف" میں ہے کہ: یہی موقف درست ہے۔