کیا غیر مسلم یتیم بچوں کی کفالت کرنا جائز ہے؟

کل ملاحظات : 105
زوم ان دور کرنا بعد میں پڑھیں پرنٹ کریں بانٹیں

کیا غیر مسلم یتیم بچوں کی کفالت کرنا جائز ہے؟ کیا غیر مسلم یتیم بچوں کی کفالت کرنا جائز ہے؟

غیر مسلم بچوں کی کفالت دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:

پہلی شرط: غیر مسلم بچوں کی کفالت کی صورت میں مسلمان بچوں کی کفالت پر منفی اثرات نہ ہوں۔

دوسری شرط: ان بچوں کی کفالت مسلمانوں کی زیر نگرانی ہو اور بچے ہر وقت مسلمانوں کے درمیان رہیں، چنانچہ اگر وہ اپنے کافر گھر والوں کے درمیان رہتے ہیں ، یا غیر مسلم ممالک میں غیر مسلم اداروں کی زیر نگرانی ہوتے ہیں تو ان کی کفالت کرنا جائز نہیں ہے۔

جیسے کہ شیخ عبد اللہ بن جبرین حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

آپ کو علم ہے کہ یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں بہت زیادہ اجر بیان کیا گیا ہے، تو کچھ ایسے ادارے اور رفاہی تنظیمیں ہیں جو کہ یتیموں کی کفالت کے حوالے سے کچھ ممالک میں بہت ہی اچھے پروگرام چلا رہی ہیں، اللہ تعالی ان کی کاوش قبول فرمائے، پھر بعض معاشروں میں مسلمان اور غیر مسلم سبھی رہتے ہیں، تو کیا عیسائی بچوں کی کفالت درج ذیل اہداف حاصل کرنے کے لیے کی جا سکتی ہے:
1- انہیں اسلام کی دعوت دیں۔

2- ان کے رشتہ داروں پر مثبت اثرات مرتب کر کے انہیں بھی اسلام کی دعوت دینے کے لیے۔

واضح رہے کہ کچھ ایسے مسلمان یتیم بھی موجود ہیں جن کی کفالت کی جا چکی ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کی ابھی تک کفالت نہیں کی جا سکی۔

اس تفصیلی سوال کے بعد انہوں نے جواب دیا:
"اگر عیسائی بچے عیسائی ملک میں ہی ہوں ، عیسائیوں کے درمیان ہی رہتے ہوں تو ان کی کفالت جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عام طور پر یہ بچے بالغ ہونے کے بعد عیسائی مذہب کے ہی پیروکار رہتے ہیں ، اپنے کفریہ دین پر ہی چلتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کی کفالت کرنے والا شخص کفار کی معاونت کر رہا ہے اور ان کے کفر پر رہنے کے لیے معاون بن رہا ہے۔ لیکن اگر یہ عیسائی بچے غیر مسلم ممالک سے نکل کر مسلمانوں کے درمیان رہیں ، ان کا تعلق عیسائی لوگوں سے کٹ جائے؛ تو ایسے میں یہ بچے انہی لوگوں کے مذہب پر ہوں گے جن کے درمیان وہ رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور تربیت کے ذریعے اسے فطرتی دین سے بیزار کیا جاتا ہے۔

مزید دیکھیں

تازہ ترین سوالات