بدنی اعمال ایمان کا لازمی جز ہیں، ان کے بغیر ایمان صحیح نہیں ہو گا۔

کل ملاحظات : 400
زوم ان دور کرنا بعد میں پڑھیں پرنٹ کریں بانٹیں

سوال کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بدنی اعمال ایمان کے کمال درجے تک پہنچنے کیلیے ضروری ہیں، اس کے بنیادی ارکان میں سے نہیں ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ایمان کے صحیح ہونے کیلیے بدنی اعمال کا ہونا ضروری نہیں ہے، اس بارے میں لوگوں کا بہت زیادہ اختلاف ہے؛ تو ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کے متعلق صحیح موقف بتلائیں، اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں ثواب سے نوازے، نیز آپ یہ بھی بتلا دیں کہ بدنی اعمال کی ایمان میں کیا حیثیت ہے؟

کتاب و سنت اور سلف صالحین کے اجماع کے مطابق  یہی بات صحیح ہے کہ ایمان قول اور فعل کا نام ہے، ایمان میں کمی زیادتی بھی ہوتی ہے نیز عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، بالکل اسی طرح زبانی اقرار کے بغیر بھی ایمان کا تصور نہیں ہے، اس لیے جب دونوں چیزیں جمع ہوں گی تو ایمان بھی صحیح ہو گا، یہ موقف اہل سنت کے ہاں مشہور و معروف ہے۔

جبکہ یہ کہنا کہ عمل ایمان کے کمال درجے تک پہنچنے کی شرط ہے تو اس کی اشاعرہ نے صراحت کی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ اشاعرہ کا ایمان کے متعلق موقف  مرجئہ کے ایک موقف سے ملتا ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین اور جن لوگوں کو ہم نے اپنی زندگی میں پایا ہے سب کا اس بات پر اجماع تھا کہ:  ایمان قول، عمل اور نیت کا نام ہے، ان تینوں میں سے ہر چیز  کا ہونا ضروری ہے؛ کوئی ایک چیز دوسرے کی جگہ پر نہیں آ سکتی" ختم شد
ماخوذ از: "شرح أصول اعتقاد أهل السنة ، از: لالکائی" (5/956) ، مجموع الفتاوى (7/209)

آجری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ذہن نشین کر لو! -اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائے- جس موقف پر تمام مسلمان علمائے کرام ہیں وہ یہ ہے کہ: ساری خلقت کیلیے ایمان لانا لازمی ہے، اور ایمان یہ ہے کہ دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اعضا سے عمل  کریں۔ پھر یہ بھی ذہن نشین کر لیں   کہ محض قلبی معرفت اور تصدیق ہی کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے بول کر اقرار کرنا لازمی اور ضروری ہے، پھر قلبی معرفت اور زبانی اقرار ہی ایمان کیلیے کافی نہیں ہیں بلکہ بدنی اعمال بھی ہونے چاہییں، چنانچہ جب یہ تینوں چیزیں کسی انسان میں یکجا ہو ں گی تو وہ شخص مومن ہو گا، اس پر کتاب و سنت کے دلائل اور علمائے اسلام کا موقف واضح انداز میں دلالت کرتا ہے۔" ختم شد
"الشريعة" (2/611)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے کے دو پہلو ہیں:
اول پہلو:  ظاہری کفر کا اثبات۔
دوم پہلو: باطنی کفر کا اثبات۔

تو دوسرے پہلو کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے، اور ایسا نا ممکن ہے کہ انسان مضبوط ایمان کا حامل ہو ، دل میں ٹھوس ایمان رکھتا ہو کہ اللہ تعالی نے اس پر نماز، زکاۃ، روزے اور حج فرض کئے ہیں لیکن  پھر بھی ساری زندگی اللہ کیلیے ایک بھی سجدہ نہ کرے، رمضان کے روزے نہ رکھے، اللہ کیلیے زکاۃ نہ دے اور نہ ہی بیت اللہ کا حج کرے، تو ایسا ناممکن ہے، اس قسم کی حرکتیں اسی وقت ممکن ہیں جب انسان کے دل میں نفاق اور زندیقیت ہو، صحیح ایمان کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (7/616)

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امت مسلمہ کے درمیان اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ  عقیدہ توحید  دل میں ہو ، اس کو علم کہتے ہیں، پھر زبان سے اقرار بھی ہو اس کو قول کرتے ہیں اور تمام احکامات  کی تعمیل اور ممنوعات  سے اجتناب   ہو اس کو عمل کہتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص ان تینوں چیزوں میں سے کسی ایک کے اندر کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو  انسان مسلمان نہیں رہتا۔

لہذا اگر کوئی شخص عقیدہ توحید کا اقرار تو کرے لیکن عمل نہ کرے تو وہ ضدی قسم کا کافر ہے جیسے کہ فرعون اور ابلیس تھے، اور اگر ظاہری طور پر تو عقیدہ توحید کے تقاضے پورے کرے لیکن دل میں کھوٹ ہو تو وہ خالص منافق ہے، جو کہ کافر سے بھی بدتر ہے، واللہ اعلم" ختم شد
"الدرر السنية في الأجوبة النجدية" (2/124)

ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں:
"ذہن نشین کر لو -اللہ تعالی آپ پر رحمت فرمائے-  اللہ کی بندگی کا دل پر اثر پختہ عقیدہ اور اللہ کیلیے محبت و نفرت   کی صورت میں  ہوتا ہے، زبان پر عقیدہ توحید کے اقرار اور کلمہ کفر بولنے سے احتراز کی صورت میں ہوتا ہے، جبکہ دیگر اعضا پر اسلام کے ارکان پر عمل اور کفریہ کاموں سے احتراز کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے، چنانچہ اگر ان تینوں میں سے کوئی  ایک چیز بھی   رہ گئی تو انسان کافر اور مرتد ہو جاتا ہے" ختم شد
"الدرر السنية" (10/87)

اہل سنت نے اس مسئلے کے متعلق بہت تفصیلات کے ساتھ لکھا ہے، اس مسئلے پر دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے فتوی بھی صادر کیا گیا ہے جس میں ہے کہ ایسی تمام تر کتابوں اور تحریروں سے خبردار رہیں جن میں عمل کو کامل ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے، نیز فتوی کمیٹی کی جانب سے یہ صراحت کی گئی ہے کہ یہ مرجئہ کا موقف ہے۔ مزید کیلیے آپ دائمی فتوی کمیٹی کا دوسرا ایڈیشن  (2/127 – 139) ملاحظہ کریں۔

تو اہل سنت کے ہاں بدنی اعمال  ایمان کا لازمی جز ہیں، ان کے بغیر ایمان صحیح نہیں ہو سکتا، اگر بدنی اعمال نہ  ہوں تو قلبی تصدیق بھی کالعدم ہو جاتی ہے؛ کیونکہ ان دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص عمل کرنے کی استطاعت بھی رکھتا ہو اور عمل کی ضرورت بھی جانتا ہو لیکن پھر بھی عمل سے عاری صرف قلبی تصدیق  کو صحیح ایمان قرار دے تو یہ ناممکن   تصور ہے، یہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے متلازم چیزوں کے درمیان تفریق کر رہا ہے، اس کا یہ موقف مرجئہ کا مذموم موقف ہے۔

واللہ اعلم

مزید دیکھیں

تازہ ترین سوالات